لگتا ہے ناز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو |
ایسے گداز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو |
نظموں میں غزلوں میں کہ سبھی شاہکاروں میں |
ہر ایک ناز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو |
یوں تار تار چھیڑا ہے دل دھڑکنوں کا پھر |
نغموں کے ساز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو |
اس بات کا گواہ خدا بھی ہے پوچھ لو |
ہر اک نماز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو |
تو جانتا نہیں، تجھے معلوم بھی نہیں |
کچھ ایسے راز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو |
بس ایک آدھ سال کی باتیں نہیں، سُنو |
عمرِ دراز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو |
آقا غلام جیسا ہے رشتہ مرا ترا |
محمود، ایاز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو |
کامران |
معلومات