جلتے شعلے بھی پانی سے نکلیں گے
جب ہم تیری کہانی سے نکلیں گے
کیا کیا غم ہوں گے پیش؟ اللہ جانے
جوں جوں ہم اِس جوانی سے نکلیں گے
سُونا سُونا لگے گا دل کا گھر جب
ہم اُن کی میزبانی سے نکلیں گے
تو خوش فہمی میں مت ہو تیرے دل سے
ہم نکلے تو روانی سے نکلیں گے
لگتے ہیں راستے بُجھے سے لیکن
ہم تاروں کی نشانی سے نکلیں گے
کامران

0
10