ہم یوں لمحے گُزارنے میں لگے ہیں
سب کو دل سے اُتارنے میں لگے ہیں
وہ سُنتا ہی نہیں ہماری جسے ہم
ہر پل، ہر دم پُکارنے میں لگے ہیں
آنکھیں، رخسار، ناک، لب، آپ بھلا
کس کی خاطر نکھارنے میں لگے ہیں
میرے ہاتھوں جنہیں سنورنا نہیں ہے
ہم وہ زُلفیں سنوارنے میں لگے ہیں
وہ تو کب کا مری اے جاں! جیت گیا
ہم یوں ہی خود کو ہارنے میں لگے ہیں
جینے کے حل ہیں، خود کشی کے سوا بھی
پر خود کو لوگ مارنے میں لگے ہیں
کامران

0
5