ہر پھول کھل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے
ہر زخم سل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے
کھو دیں جسے پل بھر میں یوں وہ بھی شخص
ہر بار مل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے
طوفاں کی زد میں سب نہیں آتے جاناں
ہر پیڑ ہل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے
میں نے اِسے پالا ہے نازِ اُلفت سے
ہر اک پہ دل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے
دل ہے خیالوں سے بھرا ہر خواہش پہ
اک دم نکل جائے یہ تھوڑی ہوتا ہے
کامران

0
9