ہے غم سے بھری جو زندگی ترک کر دوں |
خوشی سے رہوں میں اور غمی ترک کر دوں |
کسی نئے فن کو سیکھ کے دل لگاؤں |
میں سوچ رہا ہوں شاعری ترک کر دوں |
نئے نئے رنگ دیکھوں میں زندگی کے |
مزاج بدل لوں سادگی ترک کر دوں |
غرور سجا لوں ماتھے پہ اپنے میں بھی |
غرور کروں تو عاجزی ترک کر دوں |
یوں ہر شے کی میں زیادتی میں رہوں گا |
کہ خود میں سمائی ہر کمی ترک کر دوں |
میں یوں رہوں اُس کے سامنے خود میں پلتی |
وصال و نظر کی بے بسی ترک کر دوں |
میں ہر کسی کو سناؤں کہانی دل کی |
سناؤں بھی ایسے خامشی ترک کر دوں |
یہ لوگ مجھے فریفتہ کہتے ہوں گے |
اگر یوں ہے تو میں عاشقی ترک کر دوں |
کامران |
معلومات