راز ویسے بھی بتائے نہیں جاتے |
سب کے تو ناز اُٹھائے نہیں جاتے |
اک نہ اک روز دِکھانے ہی پڑیں گے |
آنکھوں میں خواب چھپائے نہیں جاتے |
لوگ دریا بھی بہانے پہ بہا دیں |
ہم سے تو آنسو بہائے نہیں جاتے |
خوش رہو، خوش جیو، دنیا اِسی میں ہے |
ماتھے پر غم تو سجائے نہیں جاتے |
اب جہاں آشنا کوئی بھی نہ ہو ہم |
ایسی محفل میں تو لائے نہیں جاتے |
رات سورج تو نظر آتا نہیں ہے |
دیپ بھی دن میں جلائے نہیں جاتے |
کچھ تو راہوں کی خبر دیتے ہیں جاناں! |
اب سبھی نقش مٹائے نہیں جاتے |
کامران |
معلومات