پہلو میں پلتے سب غم بدل جاتے ہیں
آنکھ کُھلتی ہے موسم بدل جاتے ہیں
جب کبھی عشق پر کھولنے لگتا ہے
ہائے! کم بخت پھر ہم بدل جاتے ہیں
بھیگی آنکھیں بھروسے کے قابل نہیں
لوگ تو آنکھیں بھی نم بدل جاتے ہیں
سوچتا رہتا ہوں پہروں میں یوں ہی بس
کیا کریں اُن کا؟ ہر دم بدل جاتے ہیں
جب ہوا چلتی ہے ناز سے ساز سے
اُن حسیں زلفوں کے خم بدل جاتے ہیں
کامران

20