تارے ہیں اپنی دھن میں ایسے رات پھیلائے ہوئے |
جیسے کوئی مانگے ہے منت ہات پھیلائے ہوئے |
خط بھی لکھا، سب سے کہا بھی ہے، خبر پھر بھی نہیں |
کہنے کو مدت ہو گئی ہے بات پھیلائے ہوئے |
جیسے کُھلے بازو ہوں آمد پر تری ایسے مرا |
دل دھڑکے ہے اب تک کئی جذبات پھیلائے ہوئے |
ہاتھوں میں کنگن، کانوں میں بالی، گلے میں ہار ہے |
بیٹھی ہے دُلہن سونے جیسی دھات پھیلائے ہوئے |
کچھ ساز تیری یادوں کے کچھ ناز تیری باتوں کے |
ایسے میں دھڑکے میرا دل نغمات پھیلائے ہوئے |
یوں بارِ مژگاں سے کوئی سیلاب پھوٹے گا ادھر |
آنکھیں ہیں رم جھم ہر جگہ برسات پھیلائے ہوئے |
کامران |
معلومات