حلقہ سا کوئی خوشبو میں اُٹھتا ہے |
جب خم کبھی اُس گیسو میں اُٹھتا ہے |
مانگی ہیں مسیحا کی نظریں میں نے |
اک درد مرے پہلو میں اُٹھتا ہے |
کیا پھول کلی اُس کو بہلائے گی |
وہ نازِ اثر خوشبو میں اُٹھتا ہے |
اللہ رے! وہ حسنِ نازاں جب جاگے |
جیسے کہ فسوں جادو میں اُٹھتا ہے |
یوں لاکھ گُہر پھرتے ہیں آنکھوں میں |
جب بھاؤ کبھی آنسو میں اُٹھتا ہے |
آنکھیں ہوں کہ زلفیں سب کی قیمت ہے |
جب حسن ترازو رو میں اُٹھتا ہے |
کوئی بھی زباں حرفِ چاہت میں ہو |
شاعر تو یہاں اُردو میں اُٹھتا ہے |
کامران |
معلومات