یہ لفظوں بھری ہے زندگی ترک کر دوں
میں سوچ رہا ہوں شاعری ترک کر دوں
نئے نئے رنگ دیکھوں میں زندگی کے
مزاج بدل لوں سادگی ترک کر دوں
غرور سجا لوں ماتھے پہ اپنے میں بھی
غرور کروں تو عاجزی ترک کر دوں
یوں ہر شے کی میں زیادتی میں رہوں گا
کہ خود میں سمائی ہر کمی ترک کر دوں
میں یوں رہوں اُس کے سامنے خود میں پلتی
وصال و نظر کی بے بسی ترک کر دوں
کامران

0
3