Circle Image

Amr Ali

@AmrAlvi

اوجِ کمال خام خیالوں کو چاہیے
ململ سا فرش پاوں کے چھالوں کو چاہیے
اک آدھ مصرعہ آ گیا جب سے گرفت میں
اردو سا کوہِ نور بھی لالوں کو چاہیے

0
17
یہ حقیقت ہے اور مسلّم ہے
فطرتاً ہر بشر مُعَلَّم ہے
ٹھیک ہیں دھرم و ذات کے رشتے
آدمیّت مگر مقدّم ہے
آپ بھی تو فقیر ہیں اس کے
آپ میرے لیے مکرم ہیں

0
24
کچھ عرصہ تلک پردہ نشیں ہم بھی رہے ہیں
اک رازِ محبت کے امیں ہم بھی رہے ہیں
مرعوب ہمیں اوجِ ثریا سے کریں گے؟؟
افلاک پہ بس آپ نہیں ہم بھی رہے ہیں
وہ شہرِ خموشاں کہ جہاں حشر بپا ہے
اس شہرِ محبت کے مکیں ہم بھی رہے ہیں

0
36
وہ سمجھتا ہے فقط میرا ہی گھر خاک ہوا
آتشِ ہجر میں ہر ایک بشر خاک ہوا
دمِ رخصت جو نظر آخری ڈالی اس نے
گلستاں دشت ہوا اور نگر خاک ہوا

0
17
دل کی مٹی کو کسی کام میں لایا جائے
پیڑ ممکن جو نہیں جھاڑ اگایا جائے
بنت حوا سے ہے عالم میں ترنم کا سماں
ابن آدم بھی دھنک رنگ بتایا جائے
باپ دادا سے وراثت میں کہاں ملتی ہے
شاعری دین خدا ہے نہ بھلایا جائے

0
23
اے دوست لوحِ دل سے مٹانے کی ٹھان لی
یعنی کے ہم نے اس کو بھلانے کی ٹھان لی
ڈھونڈیں گے اس کے جیسا حسیں کوئی ہم نشیں
اس دلربا کو ہم نے جلانے کی ٹھان لی
اک چاند نے جو آنکھوں میں کاجل لگا لیا
بادل نے گھن گرج کے رلانے کی ٹھان لی

0
49
پیرویِ امام واجب ہے
روشنی کو خرام واجب ہے
مے کدے کے نظام میں صاحب
مے کشوں کو سلام واجب ہے
آپ کو اس گلی سے نسبت ہے
آپ کا احترام واجب ہے

0
28
رخ پہ تیرے جو بدلتے ہوئے رنگ آتے ہیں
ایسے جلوے تو کسی نام کے سنگ آتے ہیں
تیرے آنچل کے لہکنے کا گماں ہوتا ہے
چھت پہ جب بچوں کے خوش رنگ پتنگ آتے ہیں
اب بھی لاہور کی رفتار سے اکتا کر اے دوست
ہم سکوں پانے کو سیدھا ترے جھنگ آتے ہیں

0
27
میرا تیرا ہے کیا محبت میں
جو بھی جتنا ہے سب ہمارا ہے
دور بھاگوں تو کس لیے آخر
میں ہوں یوسف نہ تو زلیخا ہے

27
اس کی آنکھوں میں وہ اداسی تھی
جیسے آغوش اس مامتا کی
جس کی کوکھ
بنجر ہو!!

28
بزمِ کونین میں چار سو آپ ہیں
لمحہ لمحہ مرے رو برو آپ ہیں
ایک بے دل کے دل میں جو ظاہر ہوئی
میرے آقا وہی آرزو آپ ہیں
حسن والوں کو اقرار کرتے بنی
سارے دارین میں خوبرو آپ ہیں

43
کیا بھلے ہیں رقومِ دریا بھی
راحتِ جاں قدومِ دریا بھی
اس کی آنکھوں میں ڈوب سکتے ہیں
چاند، عاشق، ہجوم دریا بھی
کیا کہا رات ہو گئی گہری
چھپ گئے ہیں نجوم دریا بھی

0
61
خونِ جگر سے شمع جلائی گئی ابھی
تازہ ترین نظم سنائی گئی ابھی
یک بار حظ اٹھائیے عمرِ تمام کا
اس واسطے ہی بزم سجائی گئی ابھی
کانوں میں گونجتی ہے ابھی بازگشتِ کن
دنیا کوئی نئی سی بنائی گئی ابھی

62
میں نے پوروں پہ گننا چاہا تھا
ہاتھ یاروں نے کاٹ ڈالے تھے

0
47
دل صحیفہ نزول عشق کا ہے
کل جھمیلا حصول عشق کا ہے
ایک اور ایک دو نہیں ہوتے
یہ سنہرا اصول عشق کا ہے
کون سرپٹ  گزر گیا ہے ابھی
راستہ دھول دھول عشق کا ہے

0
68
اس کو زیبا یوں کہہ مکرنی ہے
خشک پھولوں میں خوشبو بھرنی ہے
لوگ باتوں پہ کان دھرتے ہیں
میں نے کانوں پہ بات دھرنی ہے
اب تو سورج کی آنکھ کھلنی ہے
اس کے رخ کی کرن جو پڑنی ہے

0
70
منقول ہے نہیں ہے کوئی بے حسی کی حد
حد ہے تو حال شخصے در آنچه می رسد
دس ووٹ کر کے ڈپٹی سپیکر نے مسترد
چھ لاکھ ووٹروں کا کیا اعتبار رد
بد نیتی پہ مبنی ہے یہ احمقانہ فعل
وہ سوچتا ہے اس کا کہا ہو گا مستند

0
106
نا چار راہِ زمانہ پہ چلنا پڑتا ہے
جو راز دل میں نہاں ہو اگلنا پڑتا ہے
یہ تیرہ بختی مرے واسطے تو نعمت ہے
کہ منہ لگاتا ہے کوئی نہ لگنا پڑتا ہے
اور اس سے مل کے گھٹن ہے کہ بڑھتی جاتی ہے
کیا کروں؟ مجھے ہر روز ملنا پڑتا ہے

0
62
نشاطِ وصل اٹھانے سے جان چھوٹ گئی
غمِ فراق منانے سے جان چھوٹ گئی
خدا کا شکر ترے در پہ آ کے جاں نکلی
سو روز روز کے آنے سے جان چھوٹ گئی
کسی کے عشق نے وا کر دیے جہان کئی
کسی کے ناز اٹھانے سے جان چھوٹ گئی

0
56
مزہ تو جب ہے فلک خاک پر اتر آئے
زمیں کو رہنا پڑے جا کے آسمانوں میں

0
37
جس دم ترے خیال کی حدت ہوئی تمام
ہم نے سمجھ لیا کہ عبادت ہوئی تمام
پہلے پہل تو ہم کو دسمبر لگا تھا جون
پھر جون کی وہ پہلی سی شدت ہوئی تمام
جب نام سن کے چہرے پہ آئی نہ کچھ خوشی
ثابت ہوا کہ عشق کی مدت ہوئی تمام

0
46
ربط رکھا قلیل لوگوں سے
ہے محبت اصیل لوگوں سے
تیری عزت پہ ہاتھ ڈالیں گے
نہ ملا کر رذیل لوگوں سے
قطرہِ آب کو ترستا ہے
مانگی ہو گی سبیل لوگوں سے

0
72
دوستوں کے نشید میں ہوں میں
آج رنگِ فرید میں ہوں میں ا
کل کسے علم کیا سے کیا ہوگا
آج وقتِ سعید میں ہوں میں
مجھ سے قائم ہے رنگ دنیا کا
ہر کسی کی نوید میں ہوں میں

0
68
دامِ فریبِ یار میں لانے کے واسطے
دل نے دیے ہیں ہم کو زمانے کے واسطے
سالوں سنبھال رکھی ہے بوتل شراب کی
صدیوں پرانا دوست منانے کے واسطے
یہ کون چاہتا ہے مری آنکھ نا لگے
ٹھانی ہے کس نے ہوش اڑانے کے واسطے 

0
61
دیکھیے اس کا چناو سر ہے یا دستار ہے
پشت پر دیوار جس کے سامنے تلوار ہے
ہارنے والوں میں شامل دوستوں کے نام ہیں
دوستی کی ہار ہے یعنی کہ میری ہار ہے
ہم نے تھکنا ہی نہیں ہے آرزوئے وصل سے
دیکھ لیتے ہیں کہ کب تک آپ کا انکار ہے

0
62
دریا کب سیلِِ آب چاہتے ہیں
منہ دکھانے کو آب چاہتے ہیں
نفرتوں کا بھی قتل عام کرو
لوگ ایسا جناب چاہتے ہیں
فاختہ مستقل بسیرا کرے
کب بھلا یہ عقاب چاہتے ہیں؟

0
76
ہم خیالوں کی لاج رکھ لیتا
خستہ حالوں کی لاج رکھ لیتا
جاتے جاتے پکار ہی لیتا
جانے والوں کی لاج رکھ لیتا
مے کدے میں تو ساتھ ہوتے تھے
ہم پیالوں کی لاج رکھ لیتا

0
59
یہ تیرہ بختی مرے واسطے تو نعمت ہے
کہ منہ لگاتا ہے کوئی نہ لگنا پڑتا ہے

0
42
دونوں عالم کا نور پردے میں
حسن کا ہے سرور پردے میں
کس پہ سب کی نگاہیں ٹھہری ہیں
کون رہتا ہے دور پردے میں
بے حسی کی دبیز تہہ اندر
سو رہا ہے شعور پردے میں

0
53
دیکھیے اس کا چناؤ سر ہے یا دستار ہے
پشت پر دیوار جس کے سامنے تلوار ہے

0
48
میں باپ دادا سے واقف ہوں اہلِ کوفہ سے
کسی کا خط ہو مجھے اعتبار کیا کرنا

0
50
عکسِ عالی صفات دے دیتا
فہمِ موت و حیات دے دیتا
اِس حیاتِ طویل کے بدلے
کوئی رمزِ حیات دے دیتا
میں نے مانگا نہیں فقیر ترا
مٹھی بھر کائنات دے دیتا

0
58
زندگی ایک نئی دین کو بخشی تو نے
لاج ناناﷺ سے کیے عہد کی رکھی تو نے
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ جو کہا سرورِ دیںﷺ نے
واہ کیا خوب یہ آیت بھی ہے سمجھی تو نے
ایک اپنی، بہتر کی، علی بابا کی
رب بھی نازاں ہے نماز اب جو ادا کی تو نے

0
70
بات میری قبول ہے کوئی
تیرے دکھ پر ملول ہے کوئی
خاک آکاش سے نہیں ملتی
دل لگی کا اصول ہے کوئی
گلِ لالہ ہو یا کوئی گل رخ
فرق ان میں قبول ہے کوئی

0
43
مجھ پر نوازشات کی برسات ہو گئی
اس ہجرِ نامراد کی بھی رات ہو گئی
جن اور ملائکہ سے تو جیتا ہوں میں مگر
اپنے سے اک بشر سے مجھے مات ہو گئی
کچھ اس ادا سے اس نے کہا تھا میں ایک ہوں
دل پر ازل سے نقش یہی بات ہو گئی

0
96
اس نے پوچھا تھا
کیسی لگتی ہوں؟
میں نے بتلایا ساری اچھی ہو
اس نے ہنس کر کہا
امر علوی!
یار تم بھی غضب کے

0
53
یہ سلطنت کا جو اک دم نظام بیٹھ گیا
ضرور تخت پہ کوئی غلام بیٹھ گیا
سحر سے چلتا ہوا شمس شام بیٹھ گیا
ہمارے ساتھ ہی وہ خوش خرام بیٹھ گیا
کسی فقیر کی نظروں کا بوجھ اس پر ہے
کہ خامشی سے دلِ بے لگام بیٹھ گیا

0
263
کتنے ہی سایہ دار شجر اب کے کٹ گئے
جو علم و فضل کے تھے سمندر سمٹ گئے
ساقی میں اب عطا کا جنوں وہ نہیں رہا
یا بادہ خوار آپ ہی در سے پلٹ گئے
یوں دورِ انتظار کٹا اس کی چاہ میں
چھتیس سال عمر کے  جھٹ پٹ نبٹ گئے

49
آپ کو آپ سا ملا کوئی
ہم نے پایا نہ دوسرا کوئی
اس روانی سے حادثات ہوئے
خواب کا جیسے سلسلہ کوئی
مصلحت بیں سبھی یہاں ٹھہرے
شہر میں آئینہ ملا کوئی

0
53
ناحق آوازے کستے ہیں
پھر دکھ ہی جھولی پڑتے ہیں
بیلی! تم نے بھائی بولا
اب دل کو لاحق خدشے ہیں
ماں کے لقمے گننے والے
رسوا ہو کر ہی مرتے ہیں

0
64
عکس دل پر اتارنا ہے ابھی
اپنا چہرہ سنوارنا ہے ابھی
ایک عرصہ گزار آئے ہیں
ایک لمحہ گزارنا ہے ابھی
زندگی مشکلوں سے جیتا ہوں
اور سہولت سے ہارنا ہے ابھی

0
67
غزل غزال پہ کہتا ردیف کیا رکھتا
خیال بحر میں جڑتا ردیف کیا رکھتا
مری گرفت میں آیا نہ قافیہ کوئی
زمین سامنے رکھتا ردیف کیا رکھتا
خیال، لفظ، زمیں، بحر، قافیہ، بندش
کمال رنگ میں بھرتا ردیف کیا رکھتا

0
61
آج پھر دل کے دھڑکنے کا ہے انداز وہی
آج ملنے مجھے لگتا ہے کہ امر آیا ہے

0
47
کتنے ہی زاویوں میں، میں تقسیم ہو گیا
اسرار تیری ذات کے لیکن نہ کھل سکے

0
50
جب بھی جھانکا تو نظر یار کی صورت آئی
لوگ کہتے ہیں دلوں میں تو خدا رہتا ہے

0
85
ایک آدھا ہابیل ہوتا ہے
سارے بھائی قابیل تھوڑی ہیں

0
52
اس کے چہرے کا نور دیکھا
اور دل مانند طور دیکھا
ہر ایک شے دسترس میں پائی
آنکھ اٹھا کر جو دور دیکھا
تم نے کاری گری دکھائی
ہم نے اپنا قصور دیکھا

0
62
کربِ ہجراں سے سو نہیں سکتے
اتنا دکھ ہے کہ رو نہیں سکتے
داغ ایسا لگا محبت کا
ست سمندر بھی دھو نہیں سکتے
مرثیہ بھی کہا نہیں جاتا
دلِ مردہ کو رو نہیں سکتے

70
نہ ہو بلبل تو خوشبو کا نگر اچھا نہیں لگتا
تمہارے بن ہمیں اپنا بھی گھر اچھا نہیں لگتا
تمہارے سنگ کانٹوں پر بھی چلنا اچھا لگتا تھا
تمہارے بعد تاروں کا سفر اچھا نہیں لگتا
سلگتی دھوپ بھی منظور ہے گر ساتھ تیرا ہو
مہکتا ہجر بھی تیرا مگر اچھا نہیں لگتا

128
کچھ آرزوئے بتاں شاملِ خمیر بھی ہے
یونہی چراغ پہ تھوڑی پتنگ آتے ہیں

50
زندگی اپنی وہ بھی جیتی ہے
قسم ہے صبح سانس لیتی ہے
آپ کیوں زرد پڑ گئے صاحب
یہ فقط میری آپ بیتی ہے
امنِ عالم کا خون کرتی ہے
ایسی ڈائن یہ راج نیتی ہے

71
شمار ہوتے رہے عمر بھر گناہ و ثواب
کہیں نہ درج ہوئے دکھ، نہ آگہی کے عذاب
جی ان کی چاہ میں یوں راستوں پہ نقش رہے
کہ جیسے میلوں مسافت کے دشت میں ہوں سراب
ہمیں اگر نہ یہ دو چار اہل دل ملتے
قسم اے زندگی کر دیتے تیرا خانہ خراب

1
88
دل کی مٹی کو کسی کام میں لایا جائے
پیڑ ممکن جو نہیں جھاڑ اگایا جائے
بنتِ حوا سے ہے عالم میں ترنم کا سماں
ابنِ آدم بھی دھنک رنگ بتایا جائے
ہاں اسی شہر میں رہتی ہے وہ خوابوں والی
اب ٹھکانہ یاں فی الفور لگایا  جائے

100
حصار ذات سے باہر نکل کے دیکھیے تو
حضور خود کو بھی تھوڑا بدل کے دیکھیے تو
قسم خدا کی ہے دنیا بڑی حسین بلا
اور اس کے سحر زدہ لوگ ،چل کے دیکھیے تو
دو سہ پہر ہی سورج کا ذکر ہوتا ہے
یقیں نہ آئے، کسی روز ڈھل کے دیکھیے تو

82
اب خدا سے تری خاطر نہیں الجھا جاتا
اب میں تھک جاتا ہوں شب بھر نہیں جاگا جاتا
چاند یہ کہتا ہوا بامِ فلک آیا ہے
چڑھتے سورج کو اے لوگو نہیں پوجا جاتا
ویسے وہ اسم مرے وردِ زباں رہتا ہے
مسئلہ یہ ہے کہ دل پر نہیں لکھا جاتا

153
جی نہیں لگتا کسی شے میں یہاں کوچ کریں
مل ہی جائے گی کوئی جائے اماں کوچ کریں
ڈھونڈ لیتے ہیں کوئی اور زمیں اپنے لیے ہم
کھوج لیتے ہیں کوئی اور جہاں کوچ کریں
عمر جب اپنے سہارے ہی بتانی ہے ہمیں
فرق کیسا جو یہاں ہوں یا وہاں کوچ کریں

91