یہ حقیقت ہے اور مسلّم ہے
فطرتاً ہر بشر مُعَلَّم ہے
ٹھیک ہیں دھرم و ذات کے رشتے
آدمیّت مگر مقدّم ہے
آپ بھی تو فقیر ہیں اس کے
آپ میرے لیے مکرم ہیں
روز اک کربلا کو دیکھتا ہوں
روز دل میں بپا محرم ہے
کن کا نعم البدل سمجھیے اسے
مسکراہٹ بھی اسم اعظم ہے
اس کا پیغام لے کے آتی ہے
بادِ سَحَری تو روحِ عالم ہے

0
24