کتنے ہی سایہ دار شجر اب کے کٹ گئے |
جو علم و فضل کے تھے سمندر سمٹ گئے |
ساقی میں اب عطا کا جنوں وہ نہیں رہا |
یا بادہ خوار آپ ہی در سے پلٹ گئے |
یوں دورِ انتظار کٹا اس کی چاہ میں |
چھتیس سال عمر کے جھٹ پٹ نبٹ گئے |
رفتارِ ارتقائے زمانہ تو دیکھیے |
ماں باپ بھی ہیں اور اثاثے بھی بٹ گئے |
بیٹی کے سر سے سائباں اٹھنے کی دیر تھی |
حسب و نسب کے برج خلیفہ الٹ گئے |
سلجھا رہا ہوں اگلے زمانوں کی گتھیاں |
ماضی کے قصے قدموں سے آ کر لپٹ گئے |
رویا ہوں ماں کی گود میں سر رکھ کے امر جب |
جتنے تھے گہرے غم کے سبھی سائے چھٹ گئے |
معلومات