دامِ فریبِ یار میں لانے کے واسطے
دل نے دیے ہیں ہم کو زمانے کے واسطے
سالوں سنبھال رکھی ہے بوتل شراب کی
صدیوں پرانا دوست منانے کے واسطے
یہ کون چاہتا ہے مری آنکھ نا لگے
ٹھانی ہے کس نے ہوش اڑانے کے واسطے 
کیوں پانیوں پہ تخت نشیں ہو گیا ہے وہ
لوگوں سے اپنی جان چھڑانے کے واسطے
کل اس کو امر لے کے گیا تھا بازار میں
کھانا کھلا کے چائے پلانے کے واسطے

0
61