امیرِ شہر کو درپن دکھانے والے ہیں
غلام زادے سبھی تلملانے والے ہیں
پرائے ہاتھ سے کھانے کی اِن کو عادت ہے
یہ اپنے آپ سے نظریں چرانے والے ہیں
اور اِن کی گھڑتی میں اغیار کی خوشامد ہے
یہ اپنے بچوں پہ تہمت لگانے والے ہیں
سحر تو ہو گی یقیناً مگر اے ظلمتِ شب
کہاں یہ داغ آسانی سے جانے والے ہیں
یہ کربلا سے بھی کچھ سیکھتے نہیں ہیں امر
یزیدِ وقت سے کاندھے ملانے والے ہیں

0
17