یہ سلطنت کا جو اک دم نظام بیٹھ گیا |
ضرور تخت پہ کوئی غلام بیٹھ گیا |
سحر سے چلتا ہوا شمس شام بیٹھ گیا |
ہمارے ساتھ ہی وہ خوش خرام بیٹھ گیا |
کسی فقیر کی نظروں کا بوجھ اس پر ہے |
کہ خامشی سے دلِ بے لگام بیٹھ گیا |
اب اس نمازی کو ترسیلِ رزق پیہم ہو |
جو ناتوانی سے وقتِ قیام بیٹھ گیا |
یہ مے کدے کا محافظ عجیب ذہن کا ہے |
پیالہ اپنا بھرا پی کے جام بیٹھ گیا |
معلومات