یہ سلطنت کا جو اک دم نظام بیٹھ گیا
ضرور تخت پہ کوئی غلام بیٹھ گیا
سحر سے چلتا ہوا شمس شام بیٹھ گیا
ہمارے ساتھ ہی وہ خوش خرام بیٹھ گیا
کسی فقیر کی نظروں کا بوجھ اس پر ہے
کہ خامشی سے دلِ بے لگام بیٹھ گیا
اب اس نمازی کو ترسیلِ رزق پیہم ہو
جو ناتوانی سے وقتِ قیام بیٹھ گیا
یہ مے کدے کا محافظ عجیب ذہن کا ہے
پیالہ اپنا بھرا پی کے جام بیٹھ گیا

0
241