نشاطِ وصل اٹھانے سے جان چھوٹ گئی
غمِ فراق منانے سے جان چھوٹ گئی
خدا کا شکر ترے در پہ آ کے جاں نکلی
سو روز روز کے آنے سے جان چھوٹ گئی
کسی کے عشق نے وا کر دیے جہان کئی
کسی کے ناز اٹھانے سے جان چھوٹ گئی
یوں اہتمام سے قصہ تمام کر کے گیا
کہ جیسے زلف کی شانے سے جان چھوٹ گئی
رہی نہ امر ذرا احتیاجِ بیم و رِجا
تعلقات نبھانے سے جان چھوٹ گئی

0
56