| نشاطِ وصل اٹھانے سے جان چھوٹ گئی |
| غمِ فراق منانے سے جان چھوٹ گئی |
| خدا کا شکر ترے در پہ آ کے جاں نکلی |
| سو روز روز کے آنے سے جان چھوٹ گئی |
| کسی کے عشق نے وا کر دیے جہان کئی |
| کسی کے ناز اٹھانے سے جان چھوٹ گئی |
| یوں اہتمام سے قصہ تمام کر کے گیا |
| کہ جیسے زلف کی شانے سے جان چھوٹ گئی |
| رہی نہ امر ذرا احتیاجِ بیم و رِجا |
| تعلقات نبھانے سے جان چھوٹ گئی |
معلومات