خونِ جگر سے شمع جلائی گئی ابھی
تازہ ترین نظم سنائی گئی ابھی
یک بار حظ اٹھائیے عمرِ تمام کا
اس واسطے ہی بزم سجائی گئی ابھی
کانوں میں گونجتی ہے ابھی بازگشتِ کن
دنیا کوئی نئی سی بنائی گئی ابھی
اللہ حسنِ یار کی عشوہ طرازیاں
اک تار سازِ دل کی ہلائی گئی ابھی
کیونکر کلام سنتے ہی چہرے کے رنگ اڑے
لفظوں سے دل کی تال ملائی گئی ابھی
ترکِ تعلقات کا پیغام مل چکا
یعنی کہ پھر سے بجلی گرائی گئی ابھی
تو نے عجیب وقت پہ ملہار چھیڑ دی
اک بے نوا کی لاش اٹھائی گئی ابھی

62