اب خدا سے تری خاطر نہیں الجھا جاتا
اب میں تھک جاتا ہوں شب بھر نہیں جاگا جاتا
چاند یہ کہتا ہوا بامِ فلک آیا ہے
چڑھتے سورج کو اے لوگو نہیں پوجا جاتا
ویسے وہ اسم مرے وردِ زباں رہتا ہے
مسئلہ یہ ہے کہ دل پر نہیں لکھا جاتا
شوق اتنا کہ مرے پیشِ نظر رہتا ہے
رعب ایسا ہے کہ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا
پاؤں کٹنے پہ مرے مجھ پہ ہوا عقدہ کشا
امر ہو جائے تو رستہ نہیں کاٹا جاتا

153