دل کی مٹی کو کسی کام میں لایا جائے
پیڑ ممکن جو نہیں جھاڑ اگایا جائے
بنتِ حوا سے ہے عالم میں ترنم کا سماں
ابنِ آدم بھی دھنک رنگ بتایا جائے
ہاں اسی شہر میں رہتی ہے وہ خوابوں والی
اب ٹھکانہ یاں فی الفور لگایا  جائے
یہ جو رخسار پہ دریا ہے کنارے اس کے
مسکراہٹ کا نیا شہر بسایا جائے
ہاتھ میں روٹی لیے چیختا جاتا تھا فقیر
رزق آیا ہے تو مل بیٹھ کے کھایا جائے
دوست یاروں نے مجھے درد سے تعبیر کیا
عین ممکن ہے کسی دل میں بسایا جائے
باپ دادا سے وراثت میں کہاں ملتی ہے
شاعری دینِ خدا ہے نہ بھلایا جائے

100