ہم پہ بھی مہربان ہو کوئی
سر تو ہے آستان ہو کوئی
ہم کہ اوجھل رہیں زمانے سے
آنکھ سا سائبان ہو کوئی
پھوٹتی ہی نہیں خوشی کوئی
جسم جیسے چٹان ہو کوئی
آپ کو ان سے ربط ہے شاید
اتنا عمدہ گمان ہو کوئی
اس گلی میں خیال رہتا ہے
زیرِ پا آسمان ہو کوئی
لفظ آتے نہیں گرفت میں اب
کاش چپ کی زبان ہو کوئی
یوں محبت وصول کرتے ہو
دل زمیں پر لگان ہو کوئی
بھیڑ میں امر ایسے لگتے ہیں
لحدِ بے نشان ہو کوئی

0
18