| کربِ ہجراں سے سو نہیں سکتے |
| اتنا دکھ ہے کہ رو نہیں سکتے |
| داغ ایسا لگا محبت کا |
| ست سمندر بھی دھو نہیں سکتے |
| مرثیہ بھی کہا نہیں جاتا |
| دلِ مردہ کو رو نہیں سکتے |
| آج جو فقر میں چمکتے ہیں |
| وہ ستارے تو ہو نہیں سکتے |
| دل کی تسبیح میں پڑی ہے گرہ |
| تیری یادیں پرو نہیں سکتے |
| اے غمِ یار کچھ توقف کر |
| اب تجھے امر کھو نہیں سکتے |
| تجھ کو اپنا بنا تو سکتے ہیں |
| پر ترے امر ہو نہیں سکتے |
معلومات