رخ پہ تیرے جو بدلتے ہوئے رنگ آتے ہیں
ایسے جلوے تو کسی نام کے سنگ آتے ہیں
تیرے آنچل کے لہکنے کا گماں ہوتا ہے
چھت پہ جب بچوں کے خوش رنگ پتنگ آتے ہیں
اب بھی لاہور کی رفتار سے اکتا کر اے دوست
ہم سکوں پانے کو سیدھا ترے جھنگ آتے ہیں
بند کھڑکی سے کہاں تازہ ہوا آتی ہے؟
پست ذہنوں میں خیالات بھی ننگ آتے ہیں
مدتوں بعد جنہیں رزق میسر آئے
ان کو کھانے کے سلیقے نہ ہی ڈھنگ آتے ہیں
پہلے تو بات ہی کرتے نہیں ہم سے کوئی
تنگ آتے ہیں تو پھر امر بہ جنگ آتے ہیں

0
27