غزل غزال پہ کہتا ردیف کیا رکھتا
خیال بحر میں جڑتا ردیف کیا رکھتا
مری گرفت میں آیا نہ قافیہ کوئی
زمین سامنے رکھتا ردیف کیا رکھتا
خیال، لفظ، زمیں، بحر، قافیہ، بندش
کمال رنگ میں بھرتا ردیف کیا رکھتا
غزل تو غیرِ مردف رہی ہے مستعمل
پہ حوصلہ نہیں پڑتا ردیف کیا رکھتا
دل و دماغ کی اس کشمکش میں امر علی
قلم سے ہاتھ ہے ہٹتا ردیف کیا رکھتا

0
61