Circle Image

Nasir Aziz

@nasiraziz

یہ دھوپ چھاؤں تو جیون کے ساتھ چلتے ہیں
ہم ان کو دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہیں
زمانہ ان کو کبھی خود‌سنبھالتا بھی نہیں
جو گرتے گرتے یہاں خود نہیں سنبھلتے ہیں
جوان ہونے سے ان کے ہمیں خسارہ ہوا
وہ گھر سے اب ذرا کچھ کم ہی کم‌نکلتے ہیں

0
1
16
زندگی تو نے بہت زخم لگائے ہیں ہمیں
ہم نے ہر بار مگر تجھ کو دعائیں دی ہیں
بے وفائی کے سوا ہم کو ملا‌ہی کیا ہے
ہم نے لیکن تجھے بدلے میں وفائیں دی ہیں

0
7
اے ربِّ دو جہان یہی مانگتا ہوں میں‌
لیجو نہ امتحان یہی مانگتا ہوں میں‌
قتل و قتال جنگ و جدل اب نہ ہو یہاں
نفرت سے ہو امان یہی مانگتا ہوں میں‌

0
12
ندامتوں سے گھِرا ہے گناہ گار ترا
کھڑا ہے شرم لیے دل میں شرم سار ترا
نبی کے صدقے خطائیں معاف ہو جائیں
ہو اس لعین‌ پہ احسان بے شمار ترا

0
12
ہوئی ہے شام چلو اب تو اپنے گھر جائیں
کہیں نہ ایسا ہو رستے میں ہی بکھر جائیں
کبھی کسی کا بھی کوئی نہ یوں بنے عادی
کہ جب وہ چھوڑ کے جائے تو آپ مر جائیں
یہ تجربہ بھی کیا ہم نے عشق میں اکثر
ترے خیال کے آئینے میں سنو ر جائیں

0
10
میں چاہتوں کے سمندر میں ایسا ڈوب گیا
کہ چاہتوں سے ہی پھر میرا دل تو اوب گیا
میں خود کو پاتا ہوں آزاد و خود کفیل بہت
وہ تیرے عشق کا مجھ پر جو تھا وجوب، گیا

0
17
میں چاہوں تو کچھ یوں میرا طرز نگارش ہو جائے
کاغذ پر میں شعر لکھوں اور شہر میں بارش ہو جائے
اک بے چارہ ہجر کا مارا اور ذرا سا جی لے گا
اس کے حق میں آپ کے دل کی ایک سفارش ہو جائے
تم کیا جانو دل میں ہمارے کیا طوفان اٹھاتے ہو
تم تو بس یہ کہہ دیتے ہو تھوڑی بارش ہو جائے

0
33
ہم نے تازہ شعر میں باندھا نئے مضمون کو
اس کو بھی استاد بولے یہ بہت پامال ہے

0
20
طعنے مسلسل اپنے مقدر کے ہو گئے
کوتاہ قد تمام برابر کے ہوگئے
دل نے اگرچہ لاکھ گھمایا ادھر ادھر
*پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے*
ایماں بچا بچا کے رکھا تھا سو گم ہوا
ہم بھی اخیر دم اسی کافر کے ہو گئے

0
33
طعنے مسلسل اپنے مقدر کے ہو گئے
کوتاہ قد تمام برابر کے ہوگئے
دل نے اگرچہ لاکھ گھمایا ادھر ادھر
*پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے*
ایماں بچا بچا کے رکھا تھا سو گم ہوا
ہم بھی اخیر دم اسی کافر کے ہو گئے

0
183
دنیا نے ہر اک بار مجھے آنکا ہے کم کم
دل میں مرے سودائی نے بس جھانکا ہے کم کم
قدرت کے حسیں ہاتھ نے مجھ خاک بدن پر
اک پھول تو ٹانکا ہے مگر ٹانکا ہے کم کم

0
30
کچھ ڈوبنے میں میرے کسر ہی بچی نہ تھی
وہ تو مرا یقین‌بچا لے گیا مجھے

0
30
پوچھا جو غمِ دل کی دوا ہے کہ نہیں ہے
معشوق نے دعویٰ یہ کیا ہے کہ نہیں ہے
مانا کہ ہے برباد محبت یہ دوانہ
کیا اس میں تمہاری بھی خطا ہے کہ نہیں ہے
پتھر بھی پگھل جائےبہاۓ ہیں یوں آنسو
ظالم پہ اثر ان کا ہوا ہے کہ نہیں ہے

0
31
غم‌ اتنے‌نہیں ہیں مجھے غم خوار بہت ہیں
کیا کیجیے اس جان کو آزار بہت ہیں
کل خواب میں پھولوں کی جو مجھ پر ہوئی بارش
بستر کو جو دیکھا تو وہاں خار بہت ہیں
ہم‌ سادہ مزاجوں کی بھلا کیسے گذر ہو
ہر گام‌ پہ ہر موڑ پہ عیار بہت ہیں ۔

0
30
مری رگوں میں جو دوڑتا تھا لہو بھلا کیسا جم گیا ہے
کبھی جو سینے میں موج زن تھا کہاں   وہ سیلابِ تھم‌ گیا ہے
شراب خانے میں جو ملا تھا شراب پینے میں جو مزا تھا
ملی ہے عرفان کی جو مے تو خیال ادھر میرا کم گیا ہے
کبھی تھے جس کے ستم‌کے چرچے جو ظلم کرتا تھا ہر کسی پے
کہاں ہے وہ ظالم‌ و ستمگر کہاں وہ اس کا ستم‌ گیا ہے

0
45
مجھ کو عادت ہے سفر میں کچھ نہ کچھ پڑھتا ہوں میں
وہ کتابوں سے پڑھوں یا پھر کتابی چہروں سے

0
34
سہرا بہ تقریب شادی خانہ آبادی علی صدیقی سلمہ خلف رشید فرح و ندیم‌صدیقی
اس گلشنِ نفیس میں آ ئی ہے جو بہار
مدت سے ہو رہا تھا اسی کا تو انتظار
سہرا علی کے سر پہ جو رکھّا ہے اے میاں
ریحانہ بھی ہیں خلد میں مسرور و شادماں
پائی ہے انبساط فرح نے جو اس گھڑی

0
43
تری دسترس سے باہر،نہیں کوئی بھی نہیں ہے
کہیں کوئی تجھ سے بڑھ کر ،نہیں کوئی بھی نہیں ہے
تو غفور تو ہی رافع تو وکیل تو ہی واسع
نہیں کو ئی تجھ سے بہتر ،نہیں کوئی بھی نہیں ہے
تو نہیں کہاں کہاں پر، تو محیط ہر جہاں پر
کوئی اور تیرا ہم سر ، نہیں کوئی بھی نہیں ہے

0
65
تری دسترس سے باہر،نہیں کوئی بھی نہیں ہے
کہیں کوئی تجھ سے بڑھ کر ،نہیں کوئی بھی نہیں ہے
تو غفور تو ہی رافع تو وکیل تو ہی واسع
نہیں کو ئی تجھ سے بہتر ،نہیں کوئی بھی نہیں ہے
تو نہیں کہاں کہاں پر، تو محیط ہر جہاں پر
کوئی اور تیرا ہم سر ، نہیں کوئی بھی نہیں ہے

0
38
وہ انقلاب کے جو منتظر ہیں برسوں سے
یہ بھول بیٹھے کہ وہ منتشر ہیں برسوں سے

0
43
ترے کانوں میں‌ مرے شعر جو رس گھول رہے ہیں
وہ سبھی شعر مرے واسطے انمول رہے ہیں

0
62
نبی کی نعت میں رب کے کرم سے لکھتا ہوں
عرب کے شاہ کی مدحت عجم‌ سے لکھتا ہوں
ہے سر نگوں جو عقیدت سے سطحِ کاغذ پر
یہ نعتِ پاک میں ایسے قلم سے لکھتا ہوں

0
83
مسل کے رکھ دیا اس نے تومثل غنچہ مجھے
مرا قصور تبسم تھا اور کچھ بھی نہ تھا
زمانہ کہتارہا اس کو دیوتا بے شک
مرے لیے تو وہ ظالم تھا اور کچھ بھی نہ تھا

0
83
نذر غالب
ہم سر ہے نہ ثانی  ہے نہ ہم پایہ ہے کوئی
رکھے گی ابد تک تجھے  دنیائے ادب یاد
غالب ہے اسد خان اثر آپ کا اب بھی
ہے آج بھی دنیاۓ سخن آپ سے آباد

0
63
جہان سارا منور نبی کی آمد سے
یہ نور سارا محمد کی ہی عطا ٹھہرا
حقیر خود کو فقیری میں شہ سمجھتا ہے
درِ نبی کا جو ناصر یہاں گدا ٹھہرا

0
75
جشن نور مبارکمجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہے کہ اس مرتبہ دیوالی بڑے جوش و خروش سے منائی جارہی ہے اور لوگوں میں ایک نئے قسم کی امنگ نظر آتی ہے جو پچھلے دو سال سے مفقود تھی ۔ پچھلے دو سالوں میں انتہائی درجے کی تباہی و بربادی ، بیماری ، ہلاکت، اقتصادی بحران کو دیکھ کر لوگ اتنے خوفزدہ ہوگئے تھے کہ لوگ گھروں سے نکل نہ پاتے تھے لیکن تقریبا پانچ ماہ سے کورونا کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی اموات میں بہت کمی آئی اور جیسے جیسے کورونا کا اثر کم‌ہوا لوگوں نے بھی دبے رکے  ہوئے قدم اٹھانے شروع کیے،  کچھ ملنا جلنا شروع کیا ۔ حکومتوں نے بھی بازار، سنیما، تفریح گاہیں کھو لیں ۔ چہل پہل بازاروں میں واپس لوٹی اور نومبر آتے آتے جو خدشات تھے اللہ کے فضل سے وہ ظہور میں نہیں آئے اور اس لئے ماحول جشن کا ماحول بن گیا  اللہ اس کو دائم و قائم رکھے لوگوں کو ان کی خوشی وا پس ملے, لوگوں کو ان کے روزگار واپس ملیں , کاروبار پھر سے چلنے لگے اور یہ دنیا پھر وہی جو تھرکتی دنیا تھی، جو لہکتی دنیا تھی ،جو مہکتی دنیا تھی ، واپس ویسی ہی ہو جاۓ جہاں کوئی بیر نہ ہو ، کسی بھی قسم کی نفرت نہ ہو ، بس انسا

53
رات کو سوۓ صبح کو جاگے ایک خزانہ ہاتھ لگا
خواب میں دیکھے دوست پرانے ، گیا زمانہ ہاتھ لگا
ساتھ میں سب کے چھت پر پہنچے عید کا چاند نظر آیا
اس کی دید کا یارو ہم کو خوب بہانہ ہاتھ لگا
سردی گزری الماری میں کوٹ کو ٹانگ کے بھول گیے
سردی آیی کوٹ نکالا شعر پرانا ہاتھ لگا

0
63
کاش پھر خدا ہم کو رہنمائے یکتا دے
کاش پھر سے پیدا ہو ہم میں کوئی سر سید
کاش پھر کوئی ہم کو علم‌کی ردا بخشے
کاش کوئی ہو ہم میں پھر سے عالمِ جید

0
87
اس سے ملنے کی توقع گرچہ اب معدوم ہے
دل ہمارا اب بھی محو ِسعییِ نا معلوم ہے
مٹ چکے سارے نشاں اس کے ہمارے ذہن سے
نام اب بھی جادۂ ِ دل پر مگر مرقوم ہے
ہر بدی سے ہو بدی اور نیکیوں سے نیکیاں
یہ نتیجہ تو ابد سے لازم و ملزوم ہے

0
78
گفتگو میں نہ لفظِ تو رکھیے
اعلیٰ معیارِ گفتگو رکھیے
اس کے مصحف کی دید سے پہلے
اپنی آنکھوں کو با وضو رکھیے
مجھ کو پڑھیے ذرا سلیقے سے
میرے چہرے کی آبرو رکھیے

0
72
عشق وشق اور قسمیں وعدے اپنے بس کی بات نہیں
بھلے ہی کوئی اور نبھا دے اپنے بس کی بات نہیں
اس کو لبھا ئیں پینگ بڑھائیں عشق لڑائیں نا ممکن
ہم ٹھہرے بس سیدھے سادے اپنے بس کی بات نہیں

0
60
خون کا اپنے چھینٹا مارتے ہیں
عارضِ زندگی نکھارتے ہیں
اس کی یادوں کے پھول مہکا کر
اس کی خوشبو میں دن گذارتے ہیں
دل کے جلتے چراغ کی لَو سے
آرتی تیری ہم اتارتے ہیں

0
75
تقلید و پیروی میں بھلے آنکھ بند کر
اپنے حقوق کے لیے آواز تو اٹھا
بے جا تو اور لوگوں پہ مت اعتراض کر
جانا تجھے جدھر ہے بھلے ہی ادھر تو جا
جس بات پر سبھی کو بہت ہی ملال ہے
کیسی عجیب بات ہے اس پر تو خوش ہوا

0
188
تنہائی کے وبال سے تنگ آگئے ہیں ہم
محرومیِ وصال سے تنگ آگئے ہیں ہم
اس بار جو ملا تو لگے گا وہ کیا گلے
اس بے تکے خیال سے تنگ آگئے ہیں ہم
ہم کو ندامتوں کے بھنور میں پھنسا دیا
اس خوۓ ارتجال سے تنگ آگئے ہیں ہم

0
101
ایک فرعون کی رضا کے لیے
مت خدا کہہ اُسے خدا کے لیے
ہم نے کھوۓ ہیں قیمتی رشتے
ایک بیکار سی انا کے لیے
ہم پیٔے جا رہے ہیں زہرِ حیات
اے خدا بس تری رضا کے لیے

102
مری ان بند آنکھوں میں مناظر رقص کرتے ہیں
کہ جیسے خانقاہوں میں مجاوِر رقص کرتے ہیں
ذرا نزدیک جانے پر یہ پاؤ گے کہ بھوکے ہیں
وہ بچّے شاہ راہوں پر بظاہر رقص کرتے ہیں
اسے اقدار و احساسات کا ہی فرق سمجھیں گے
میں جن باتوں پہ شرمندہ ، معاصر رقص کرتے ہیں

62
جھوٹ کا ساتھ گر نبھاؤ گے
کیسے خود سے نظر ملاؤگے
آج ہر شخص بن گیا ہے خدا
سامنے کس کے سر جھکاؤگے
یہ تکلّف یہ نازُکی یہ حیا
ان اداؤں سے مار جاؤ گے

0
76
ہمارے شہر میں معصوم کتنے مارے گئے
جو تیرے عشق میں بیمار تھے وہ سارے گئے
اگرچہ تو نے ڈبویا تھا ان بِچاروں کو
وہ ڈوبتے رہے لیکن تجھے پکارے گئے
وہ کیا گیے کہ مری شاعری بھی ماند پڑی
کہ جن سے شعر تھے روشن وہ استعارے گئے

0
69
ہمارے شہر میں معصوم کتنے مارے گئے
جو تیرے عشق میں بیمار تھے وہ سارے گئے
اگرچہ تو نے ڈبویا تھا ان بِچاروں کو
وہ ڈوبتے رہے لیکن تجھے پکارے گئے
وہ کیا گیے کہ مری شاعری بھی ماند پڑی
کہ جن سے شعر تھے روشن وہ استعارے گئے

0
79
عادتیں جب خراب ہوتی ہیں
لذتیں پھر عذاب ہوتی ہیں
مشکلیں زندگی کا سچ ہیں میاں
راحتیں تو سراب ہوتی ہیں
منزلوں پر پہنچنے سے پہلے
مشکلیں ہم رکاب ہوتی ہیں 

0
85
عاشقی صدق و محبت الفتیں دیوانگی
دل کی دنیا کا یہی سامان ہونا چاہیے
ہو مسلماں غیر مسلم یا کہ بالکل دہریہ
آدمی کچھ ہو مگر انسان ہونا چاہیے

0
47
جو میرے جسم و روح کا سوہان بن گیا
اب اس کو کیا کروں وہ مری جان بن گیا
سارا کلام اپنا معنون کیا اسے
وہ جب مری حیات کا عنوان بن گیا
ایسی نظر ملی مری کافر نگاہ سے 
اب اس کا عشق ہی مرا ایمان بن گیا

86
جو میرے جسم و روح کا سوہان بن گیا
اب اس کو کیا کروں وہ مری جان بن گیا
سارا کلام اپنا معنون کیا اسے
وہ جب مری حیات کا عنوان بن گیا
ایسی نظر ملی مری کافر نگاہ سے
اب اس کا عشق ہی مرا ایمان بن گیا

0
94
اپنی سیاہ کاریاں سب سے چھپاتے ہیں
گہری اندھیری رات ہو تب گل کھلاتے ہیں
جن کی صداقتوں کی قسم سب اٹھاتے ہیں
پکڑے انہی فرشتوں کے لکھے پہ جاتے ہیں
دنیا کے واسطے جو کسی کام کے نہیں
ایسے تمام لوگوں کے ہم کام آتے ہیں

0
77
وہ ہم سے روٹھ کے جب دور جا کے بیٹھ گئے
تو ہم بھی آ س کا تکیہ لگا کے بیٹھ گئے
اثاثہ سلف کا سارا لٹا کے بیٹھ گئے
زبان ہی تو بچی تھی وہ کھا کے بیٹھ گئے
ہم ان کے کمرے میں یک لخت آ کے بیٹھ گئے
وہ اٹھ کے بھاگے، اچانک لجا کے بیٹھ گئے

0
77
جمہوریت چلائیں گے ہم اپنی طرز پر
جیسا ہمیں پسند ہے ویسا کریں گے ہم
آواز جو اٹھاتے ہیں ایواں میں آپ کی
ان سے سوال کرنے کا حق چھین لیں گے ہم

0
44
اس کا بغض و عناد اف توبہ
میرے غم پر ہے شاد اف توبہ
عشق کے دشمنوں نے عشق کو بھی
کہہ دیا اب جہاد اف توبہ
کہنے کر نے میں اس مسیحا کے
کس بلا کا تضاد اف توبہ

0
61
بن گئی ایک خوش ادا سے مری
تم کہانی سنو ہوا سے مری
شام سے ہوں میں اس کے سحر میں گم
اب سحر ہو نہ ہو بلا سے مری
آسماں تک گیا غبار وجود
دوستی کیا ہوئی ہَوا سے مری

0
84
یہ سب اس وقت جو یکجا ہیں ناصر
حقیقت میں بہت بکھرے ہوئے ہیں
پرندوں کی خموشی کہہ رہی ہے
یہ جنگل میں بہت سہمے ہوئے ہیں

0
62
شام سے ہوں میں اس کے سحر میں گم
اب سحر ہو نہ ہو بلا سے مری

0
14