| مری رگوں میں جو دوڑتا تھا لہو بھلا کیسا جم گیا ہے |
| کبھی جو سینے میں موج زن تھا کہاں وہ سیلابِ تھم گیا ہے |
| شراب خانے میں جو ملا تھا شراب پینے میں جو مزا تھا |
| ملی ہے عرفان کی جو مے تو خیال ادھر میرا کم گیا ہے |
| کبھی تھے جس کے ستمکے چرچے جو ظلم کرتا تھا ہر کسی پے |
| کہاں ہے وہ ظالم و ستمگر کہاں وہ اس کا ستم گیا ہے |
| عجیب ہے اس کی بے رخی بھی عجیب تر اس کی دشمنی بھی |
| کبھی نہیں اب ملے گا مجھ سے ، وہ کھا کے میری قسم گیا ہے |
| یہاں جو ہے اہل مال و ثروت یہ سب اسی کی تلاش میں ہیں |
| مگر میں اس کی تلاش میں ہوں ابھی جو اہلِ قلم گیا ہے |
معلومات