ہمارے شہر میں معصوم کتنے مارے گئے
جو تیرے عشق میں بیمار تھے وہ سارے گئے
اگرچہ تو نے ڈبویا تھا ان بِچاروں کو
وہ ڈوبتے رہے لیکن تجھے پکارے گئے
وہ کیا گیے کہ مری شاعری بھی ماند پڑی
کہ جن سے شعر تھے روشن وہ استعارے گئے
یہاں کے لوگوں نے آخر نہ مانا حکم خدا
گو ان کے بیچ میں کتنے نبی اتارے گئے
پھنسے تو زلف گرہ گیر کے بھنور میں بہت
بچے وہی جو تری زلف کو سنوارے گئے

0
69