اس سے ملنے کی توقع گرچہ اب معدوم ہے
دل ہمارا اب بھی محو ِسعییِ نا معلوم ہے
مٹ چکے سارے نشاں اس کے ہمارے ذہن سے
نام اب بھی جادۂ ِ دل پر مگر مرقوم ہے
ہر بدی سے ہو بدی اور نیکیوں سے نیکیاں
یہ نتیجہ تو ابد سے لازم و ملزوم ہے
غیر تو کویی نہیں لیکن حقیقت ہے یہ تلخ
میری دنیا آج بھی اپنوں سے ہی محروم ہے
کام آتی ہے ریاکاری و عیّا ری بہت
لوگ ظالم کو سمجھتے ہیں کہ وہ معصوم ہے
جمع کی ہم نے بہ فیضِ عشق یہ دولت عزیز
ایک اس کی یاد ہے اور اک دلِ مغموم ہے

0
80