تنہائی کے وبال سے تنگ آگئے ہیں ہم
محرومیِ وصال سے تنگ آگئے ہیں ہم
اس بار جو ملا تو لگے گا وہ کیا گلے
اس بے تکے خیال سے تنگ آگئے ہیں ہم
ہم کو ندامتوں کے بھنور میں پھنسا دیا
اس خوۓ ارتجال سے تنگ آگئے ہیں ہم
کتنے ہوئے ہیں خرچ تو باقی ہیں کتنے اب
اعدادِ ماہ و سال سے تنگ آگئے ہیں ہم
سو جانا جاگ جانا یہی زندگی ہے بس
اس روز و شب کے جال سے تنگ آگئے ہیں ہم
دو ایک ہوں تو صبر بھی کر لیجئے میاں
اتنوں کے ارتحال سے تنگ آ گیے ہیں ہم

0
102