خون کا اپنے چھینٹا مارتے ہیں
عارضِ زندگی نکھارتے ہیں
اس کی یادوں کے پھول مہکا کر
اس کی خوشبو میں دن گذارتے ہیں
دل کے جلتے چراغ کی لَو سے
آرتی تیری ہم اتارتے ہیں
بات کچھ کام‌کی نہیں کرتے
شیخیاں خوب ہم بگھارتے ہیں
کیسی وحشت ہے چھوڑ کر گلشن
اُس کو صحراؤں میں پکارتے ہیں
جان کو بھی خبر نہ کانوں کان
دیکھ شب خون‌ ایسےمارتے ہیں

0
78