مری ان بند آنکھوں میں مناظر رقص کرتے ہیں
کہ جیسے خانقاہوں میں مجاوِر رقص کرتے ہیں
ذرا نزدیک جانے پر یہ پاؤ گے کہ بھوکے ہیں
وہ بچّے شاہ راہوں پر بظاہر رقص کرتے ہیں
اسے اقدار و احساسات کا ہی فرق سمجھیں گے
میں جن باتوں پہ شرمندہ ، معاصر رقص کرتے ہیں
بجا رستہ اگر پیرِ مغاں خود بھول بیٹھا ہو
تو مے خانے میں ہر جانب اوامر رقص کرتے ہیں
سجی ہے بزمِ سلطانی برستی ہے شرابِ زر
صحافی رقص کرتے ہیں تو شاعر رقص کرتے ہیں
اگرچہ پاؤں میں زنجیر ہے ظالم سے ٹکّر ہے
لگا کر جان کی بازی اے ناصر رقص کرتے ہیں

63