اپنی سیاہ کاریاں سب سے چھپاتے ہیں
گہری اندھیری رات ہو تب گل کھلاتے ہیں
جن کی صداقتوں کی قسم سب اٹھاتے ہیں
پکڑے انہی فرشتوں کے لکھے پہ جاتے ہیں
دنیا کے واسطے جو کسی کام کے نہیں
ایسے تمام لوگوں کے ہم کام آتے ہیں
دیوانہ جن کو کر دیا تیرے فراق نے
شہروں میں ایسے لوگ تو بڑھتے ہی جاتے ہیں
شاید انہی کے دم سے ہے روشن جہان سب
دیپک محبتوں کے جلائے ہی جاتے ہیں
دنیا کی ہر برائی میں مضمر ہے ایک بات
عالم یہ بے ثبات ہے ہم بھول جاتے ہیں
اپنا مزاج یہ ہے کہ جب چل پڑے عزیز
رستے تمام جانبِ منزل بڑھاتے ہیں

0
79