Circle Image

Anjum Jalal

@anjumjalal

جھوٹ گھڑتے ہو کچھ ایسے کہ دکھا بھی نہ سکو
زخم کھاتے ہو کچھ ایسے کہ چھپا بھی نہ سکو
لوگ کہتے ہیں کہ آتش زنی ہے شیوہ ترا
آگ بھڑکائی ہے کیوں جس کو بجھا بھی نہ سکو
بھول جانا تری عادت ہے مگر یاد رہے
گھاؤ لگ جائیں گے ایسے کہ بھلا بھی نہ سکو

0
2
ماضی کی روایات کو دہراتے رہو
زخموں کو یونہی پیار سے سہلاتے رہو
مسدود رہیں ذہن کے تاریک روش
آزادئ افکار سے کتراتے رہو

1
3
قصۂ عشق بھلا کیسے کہوں ختم ہوا
کھیل سب ختم ہوا کارِ فسوں ختم ہوا
برملا ختم ہوئے سارے تعلق یہ نہ پوچھ
وہ کہاں ختم ہوا اور یہ کیوں ختم ہوا
مل گئیں منزلیں ایسی جنہیں چاہا بھی نہ تھا
آہ اب کوششِ پیہم کا جنوں ختم ہوا

6
بے نیازی کی نظر ہے فاصلہ
کتنا ظالم بے خبر ہے فاصلہ
کارواں میں کون تھے اور کیا ہوئے
رہ گیا جو ہم سفر ہے فاصلہ
رہبروں اور رہزنوں کے درمیاں
ہر طرف ہی منتشر ہے فاصلہ

0
11
جو بے نیازِ دید ہو اس سے حجاب کیا
گریہ ہی جس کی عید ہو اس پر عذاب کیا
توڑے ہوں اپنے ہاتھ سے جس نے سبو تمام
اس کی نظر میں جام کیا اور شراب کیا
سب نسبتیں غرور کی پامال ہو گئیں
کیا پوچھتے ہو میرا نسب کیا نصاب کیا

0
12
خورشیدِ درخشاں جو منور تھا جہاں میں
اب اس کی چمک سے ہیں دمکتے یہ ستارے
استاد تو مل جاتے ہیں ہر گام پہ لیکن
نایاب وہ گوہر ہے جو تقدیر سنوارے
اللہ سلامت رہے یہ بزمِ کواکب
خورشید کے ہمراہ ہوں جنت میں بھی سارے

0
10
حالتِ زار بدل جائے یہ امکاں تو نہیں
یہ مرا وہم ہے اللہ کا فرماں تو نہیں
رونقیں لوٹ ہی آئیں گی چمن میں اک دن
خزاں کی زد میں یہ گلشن ابھی ویراں تو نہیں
پھر اٹھا ہے جو یہ لشکر مرے خیموں کی طرف
یہ بگولہ ہے کوئی نوح کا طوفاں تو نہیں

0
20
عسرت میں امیری کا بھرم اور کہاں تک
یہ مرتبہ و جاہ و حشم اور کہاں تک
لاشوں سے سجے دیر و حرم اور کہاں تک
اے گردشِ دوراں یہ ستم اور کہاں تک
گرتے ہوئے مظلوم سبھی پوچھ رہے ہیں
ظالم پہ ترے لطف و کرم اور کہاں تک

24
مخلوق میں ہے کون جومحبوب نہیں
دکھ سب کے اٹھانا ہمیں معیوب نہیں
الزامِ بغاوت تو رہا سر پہ مگر
غداری کوئی ہم سے منسوب نہیں

0
13
خود راہ سے بھٹکے پہ ندامت نہ ہوئی
رسوا ہوئے ہر جا پہ ملامت نہ ہوئی
سو بار گرے پھر سے اٹھے ، اٹھ کے گرے
سب اس کی رضا ہے جو قیامت نہ ہوئی

0
18
حالات کی گردش سے کھائی نہ شکست
دیوانے رہا کرتے ہیں اس آس پہ مست
تو رب ہے ہمیں پالنا ہے کام ترا
ہم کیسے بھلادیں تیرا پیمانِ الست

0
13
درود ان پہ بصد احترام کَرتے ہیں
ہمارےنام جو لکھا ہے کام کرتے ہیں
جہاں میں بانٹتے رہتے ہیں عشق کا سودا
انہی کے فیض سے یہ فیض عام کرتے ہیں
مرے کریم سے سیکھے سبھی نے رازِ حیات
اسی لئے تو سبھی احترام کرتے ہیں

0
19
جب بھی ذکرِ رسول ہوتا ہے
رحمتوں کا نزول ہوتا ہے
باریابی سبھی کو ملتی ہے
آنا سب کا قبول ہوتا ہے
سب زمانے انہی کی خاطر ہیں
جن کا فرماں اصول ہوتا ہے

2
41
شامل جو ان کے ذکر میں احباب ہو گئے
وافر نشاط روح کے اسباب ہو گئے
جب بھی لیا کسی نے محبت سے ان کا نام
مصروفِ رقص منبر و محراب ہو گئے
ہم کو وفور شوق نے بخشی وہ مستیاں
بے خود ہوئے، بے دم ہوئے، بےتاب ہو گئے

26
مجھے نظر کی زکوٰۃ دے کر مرے جنوں کو وہ بات دیدے
مجھے غموں سے رہائی دیکر مجھے دکھوں سے نجات دیدے
مرے خیالوں کی ساری راہیں الجھ الجھ کر بکھر رہی ہیں
نکال دے اس بھنور سے کشتی، سکون دیدے ثبات دیدے
ترا تصور ہی روز و شب کے تمام لمحوں کو فتح کر لے
مرے دنوں میں یہ دن بسا دے مری شبوں کو یہ رات دیدے

1
28
کن شعاعوں کو تراشوں جو بنے وہ پیکر
میرے الفاظ نحیف اور سخن بھی ابتر
ایک وہ غار حرا ایک یہ دل ہے میرا
کس کی توقیر ہے کیا میں یہ بتاؤں کیونکر
تیری نسبت کے سوا میرا ہنر اور ہے کیا؟
میں نے ہر اوج پہ رک کر یہی سوچا اکثر

0
20
ہزاروں خواب ٹوٹے ہیں ہزاروں دل دکھائے ہیں
جو کانٹے مل کے بوئے تھے انہی کے زخم کھائے ہیں
جہاں بادل برستے تھے گھنے پیڑوں کے سائے تھے
اسی بستی  کے اوپر گرد کے طوفان چھائے ہیں
کسی حاکم کو رک کر ایک دن یہ سوچنا ہوگا
کہ انسانوں کے حلیے میں درندے کیسے آئے ہیں

0
15
کمالِ شوق نے بخشا ہے ذوقِ رعنائی
اسی کے دم سے میسر ہے حسن و زیبائی
مجھے قبول تھا رسوا کریں عدو لیکن
انہیں قبول نہ تھی میری شان رسوائی
بسا یہ جبر کہ ہم محفلوں میں قید رہیں
زہے نصیب کہ باقی ہے ذوق تنہائی

0
27
یہ کرشمہ بھی کوئی صاحبِ ارشاد کرے
رہنمائی کو نئی روشنی ایجاد کرے
مرے مالک کی یہ مرضی ہے کہ اس عہد میں وہ
روح کو قید کرے ذہن کو آزاد کرے
کھل اٹھی مردہ زمیں بارش و سیلاب کے بعد
یہ ضروری نہیں طوفاں ہمیں برباد کرے

0
40
منہ زور جو وبا ہے مانندِ فیلِ مست
 بکھری ہوئی قضا ہے ہر جا چہار سمت
 سالِ گزشتہ اپنی دہشت لیے ہوئے
زیرِ نقاب آمد ، زیرِ نقاب رفت

16
تمہیں خبر ہے گنوایا کہاں گہر دل کا
 سراغ ڈھونڈتے پھرتے ہو دربدر دل کا
نہ اس کی بات سنی اور نہ معذرت چاہی
یہ قرض ہم پہ رہا یونہی عمر بھر دل کا
مرے خمیر کی مٹی میں کچھ فساد رہا
بنا سکا نہ جسے کچھ بھی کوزہ گر دل کا

28
دھیرے دھیرے آ جاتا ہے دم میں اپنا دم
رنج و غم میں سکھ دیتا ہے تیرا میٹھا غم
جن کا جینا مرنا تیرے درشن کی ہو دین
خوش رہتے ہیں دید پہ تیری بیش ملے یا کم

14
روشنی بن کے کوئی یاد پرانی آئی
دل کے آنگن میں نئی صبح سہانی آئی
لاکھ سوچا کہ سبھی کہہ دیں مگر کہہ نہ سکے
گفتنی بات بھی  ہم کو نہ بتانی آئی
دولتِ غم کو چھپانا کوئی سیکھے ہم سے
دولتِ عشق کبھی بھی نہ چھپانی آئی

0
37
درد سہتے رہو قیامت تک
آہ بھرتے رہو قیامت تک
بندگی میں نہ کچھ خلل آئے
یونہی ڈرتے رہو قیامت تک
جن خداؤں کو خود تراشا ہے
ان کے بندے بنو قیامت تک

0
13
آپ نے دل میں آ کے حد کر دی
ہم نے آنسو بہا کے حد کر دی
بات دل کی نہ رہ سکی دل میں
ہم نے غزلیں سنا کے حد کر دی
وہ بہت خوش تھے اپنی حالت پر
ہم نے شیشہ دکھا کے حد کر دی

1
24
مہرباں کون ہے دیتا ہے جو مال و منال
کیسے پایا ہے زمانے میں یہ اوج و کمال
ہم کہ ہیں صاحبِ عز و شرف جاہ و جلال
کون کر سکتا ہے ہم سے بھلا ایسے سوال

0
12