| میں وہ شجر توانا ہوں جو اس صحرائے سورج سوختہ میں سر اٹھائے استقلال سے تن کر کھڑا ہے |
| (صحرائے سورج سوختہ جس میں پیاسے سانپ پلتے ہیں) |
| میں وہ شجر توانا ہوں کہ جس پر آگ کی بارش برستی ہے |
| جس کی گھنی شاخوں پہ آسمانی بجلیاں ہر دم کڑکتی ہیں |
| جسے وحشی بگولے تنکا تنکا منتشر کرنے کی خاطر سر پٹکتے ہیں |
| میں وہ شجر توانا ہوں، جس کی میٹھی چھاؤں کتنی ذی نفس روحوں کی جنت ہے |
| سر برہنہ ، زخم خوردہ، جان بلب انسانوں کی راحت ہے |
| میں وہ شجر توانا ہوں، جس کے نیم روشن سائے میں، |
| روشنی سے خیرہ آنکھوں کی بصارت لوٹ آتی ہے، |
| بصیرت لوٹ آتی ہے |
| جس کے سائے کی ہوائے نرم رو ،غم زدہ زخمی دلوں کو جوڑ دیتی ہے |
| جو بنجر حوصلوں کو شبنمِ امید سے سیراب کرتی ہے |
| برستی آگ، کڑکتی بجلیاں، سانپ، وحشی بگولے، |
| اسی دیوانگی میں بار ہا خوار و زبوں ٹھہرے |
| مسلسل سوچ کے گرداب میں ژولیدہ مو ٹھہرے |
| کہ میری روز افزوں تازگی کا راز کیسا ہے؟ |
| صحرائے زہر آلود میں روئیدگی کا راز کیسا ہے؟ |
| یہ ان کے دائرۂ ادراک سے باہر کی باتیں ہیں |
| یہ راز زندگی، موت کے حدِ عمل میں آ نہیں سکتا |
| یہ کیسے جان پائیں۔۔۔ |
| غمزدہ روحوں کے اشکوں کی جھیلیں |
| شکستہ پیکروں میں مچلتے خون کے دریا |
| رات دن میری جڑیں سیراب کرتے ہیں |
| جان بلب انسانوں کے تنفس کی ہوا |
| مری ہر سمت امڈتی ٹہنیوں میں روح بھرتی ہیں |
| میں وہ شجر توانا ہوں ، |
| جو صحرائے عدم میں زندگی کی جنگ لڑتا ہے |
معلومات