ہزاروں خواب ٹوٹے ہیں ہزاروں دل دکھائے ہیں |
جو کانٹے مل کے بوئے تھے انہی کے زخم کھائے ہیں |
جہاں بادل برستے تھے گھنے پیڑوں کے سائے تھے |
اسی بستی کے اوپر گرد کے طوفان چھائے ہیں |
کسی حاکم کو رک کر ایک دن یہ سوچنا ہوگا |
کہ انسانوں کے حلیے میں درندے کیسے آئے ہیں |
مجھے یہ خواب اپنے اس قدر پیارے نہ ہوں کیونکر |
جگر کا خون دے کر ان کے خال و خط بنائے ہیں |
خدایا بھیج دے اپنے کرم کی بارشیں اب تو |
پرندے بھی تمہاری بارگہ میں سر جھکائے ہیں |
معلومات