امن کی بات جہاں رسمِ اضافی ہوگی
خون ریزی کی بھلا کیسے معافی ہوگی
کاٹ لی مرگِ مفاجات کی صورت میں سزا
اب مرے جرمِ ضعیفی کی تلافی ہوگی
زخم خوردہ ہیں سبھی پھول مرے گلشن کے
اب مرا تیر تری سینہ شگافی ہوگی
ایک پیمانِ الست وجہ تسلی ٹھہرا
نہ ہوئی ہے نہ کبھی وعدہ خلافی ہوگی
شاعری کی ہے ہمیشہ اسی امید پہ یہ
سوختہ دل کے لئے مرہمِ شافی ہوگی

0
7