حالتِ زار بدل جائے یہ امکاں تو نہیں
یہ مرا وہم ہے اللہ کا فرماں تو نہیں
رونقیں لوٹ ہی آئیں گی چمن میں اک دن
خزاں کی زد میں یہ گلشن ابھی ویراں تو نہیں
پھر اٹھا ہے جو یہ لشکر مرے خیموں کی طرف
یہ بگولہ ہے کوئی نوح کا طوفاں تو نہیں
صاحبو کوچہء دل لٹ کے بھرا رہتا ہے
دولتِ غم ہے بہت، بے سر و ساماں تو نہیں
ضابطے سخت ہیں رخصت نہیں غفلت کی یہاں
عشق کی راہ میں آزادئ زنداں تو نہیں
ہاتھ اٹھ جائیں دعا کو تو بگڑنا کیسا
میرے ہاتھوں کا حدف تیرا گریباں تو نہیں

0
20