جذبات کو قرینۂ اظہار چاہئے
حسنِ بیان و خوبئ گفتار چاہئے
لیں آگئے ہیں آپ کے دربار میں غلام
پھر روشنی اے سیدِ انوار چاہیے
زادِ سفر سبھی نے بہم کر لیا مگر
اب قافلے کو قافلہ سالار چاہیے
دائم رواں ہیں زیست کے انجام کو سبھی
ہاں دیکھنے کو دیدۂ بیدار چاہئے
اب ہار اور جیت ہے اقدار کی شکست
طاقت کے ساتھ طاقتِ کردار چاہیے
اک عمر سے کھڑا ہوں کڑی دھوپ میں کہ کب
آ جائے جس کو سایۂ دیوار چاہیے

0
8