| جھوٹ گھڑتے ہو کچھ ایسے کہ دکھا بھی نہ سکو |
| زخم کھاتے ہو پھر ایسے کہ چھپا بھی نہ سکو |
| لوگ کہتے ہیں کہ آتش زنی ہے شیوہ ترا |
| آگ بھڑکائی ہے کیوں جس کو بجھا بھی نہ سکو |
| بھول جانا تری عادت ہے مگر یاد رہے |
| گھاؤ لگ جائیں گے ایسے کہ بھلا بھی نہ سکو |
| جو بھی نزدیک ہوا دکھ ہی اٹھائے تم سے |
| نہ بگاڑو وہ تعلق کہ بنا بھی نہ سکو |
| راہ کی خاک سمجھتے تھے ولیکن ہم تو |
| تیرے سینے پہ ہیں پتھر جو ہلا بھی نہ سکو |
| وار کرتے ہو سدا رات کی تاریکی میں |
| تیر کیسے ہیں جنہیں دن میں چلا بھی نہ سکو |
| وقت اب دور نہیں ہے کہ ہزیمت کے سبب |
| داستاں اپنی زمانے کو سنا بھی نہ سکو |
معلومات