سرحدیں توڑ کے ہر سمت ہے پھیلا پانی
کون کہتا تھا نہ دے گا ہمیں قطرہ پانی
ایک پانی کے کئی رنگ کئی روپ بنے
کہیں راوی، کہیں گنگا کہیں جمنا پانی
رہگزر اس کی تھی جس پر ہوئے قابض انساں
ہم جسے بھول گئے وہ نہیں بھولا پانی
دیکھ فطرت کے غضب ناک ارادوں کو سمجھ
شہر برباد ہوئے اور ہوئے صحرا پانی
کوئی تفریق نہ کی شاہ و گدا کے گھر کی
اس قدر عدل سے ہر بار ہے برسا پانی
موج دریا سے اٹھے، آنکھ سے آنسو برسیں
روک پایا ہے کبھی کوئی یہ بپھرا پانی

1
18
بہت خوب

0