زمانہ اپنی روش پر رواں ہے کیا کہیے
جمالِ یار جواں تھا جواں ہے کیا کہیے
کہیں برستی ہے بارش زر و جواہر کی
کہیں پہ شعلہ فشاں آسماں ہے کیا کہیے
الٰہی یہ بھی کوئی فتنہ و دجل تو نہیں
رقیب آج مرا ترجماں ہے کیا کہیے
یہ ریگزار تمنا ہے خشک رہنے دو
بہار اس کے لیے امتحاں ہے کیا کہیے
مقام و حال بدلتے رہے یہاں لیکن
دلِ غریب جہاں تھا وہاں ہے کیا کہیے
شعور حسن عطا ہے حسین لوگوں کی
ہمیں یہ ناز کہاں تھا کہاں ہے کیا کہیے
ہزار غم سہی دل پر سکون طاری ہے
کہ ذکر دوست بڑا مہرباں ہے کیا کہیے

0
8