سایہ نہ دے سکا اور  جس پر ثمر نہیں
ہے استخوانِ چوبِ خستہ، شجر نہیں
ہم مطمئن  ہیں عہدِ  پارینہ توڑ کر
ہر چند عہدِ نو کی کوئی خبر نہیں
گو یہ دیار کل سے  بڑھ کر حسین ہے
صد حیف اب تمیزِ عیب و ہنر نہیں
سب بانٹتے  ہیں مالِ بے چارگی ادھر
افسوس اب ادھر کوئی  چارہ گر نہیں
تنہا مسافرت ہے قسمت کی راہ پر
ہے قافلہ رواں  کوئی ہمسفر نہیں
اس خود شکستگی کا چارہ نہ ہو سکا
جز عشق کوئی حیلہ اب کار گر نہیں
یہ حاصلِ جنونِ تکمیلِ حسن ہیں
یہ شعر جس طرح بھی ہیں، بے اثر نہیں

0
14