| عقل کو راہ دکھائیں گے ذرا دیر کے بعد |
| آتشِ دل کو بجھائیں گے ذرا دیر کے بعد |
| ایک نایافت کا غم جسے دل بھول گیا |
| پھر اسے یاد دلائیں گے ذرا دیر کے بعد |
| قصۂ درد بہت دیر دبائے رکھا |
| سلسلہ وار سنائیں گے ذرا دیر کے بعد |
| جو تمہیں کسلِ جہاں بینی سے آزاد کریں |
| آؤ وہ خواب دکھائیں گے ذرا دیر کے بعد |
| منتظر موجِ بلا ہے تو اٹھا لو لنگر |
| یہ نہ کہنا کہ اٹھائیں گے ذرا دیر کے بعد |
| جہلِ زاہد نے سجائے ہیں جہاں دار و رسن |
| رند میخانے بنائیں گے ذرا دیر کے بعد |
| موسمِ گل نہ رہا قریۂ جاں میں تو اسے |
| زرد پتوں سے سجائیں گے ذرا دیر کے بعد |
معلومات