عقل کو راہ دکھائیں گے ذرا دیر کے بعد
آتشِ دل کو بجھائیں گے ذرا دیر کے بعد
ایک نایافت کا غم جسے دل بھول گیا
پھر اسے یاد دلائیں گے ذرا دیر کے بعد
قصۂ درد بہت دیر دبائے رکھا
سلسلہ وار سنائیں گے ذرا دیر کے بعد
جو تمہیں کسلِ جہاں بینی سے آزاد کریں
آؤ وہ خواب دکھائیں گے ذرا دیر کے بعد
منتظر موجِ بلا ہے تو اٹھا لو لنگر
یہ نہ کہنا کہ اٹھائیں گے ذرا دیر کے بعد
جہلِ زاہد نے سجائے ہیں جہاں دار و رسن
رند میخانے بنائیں گے ذرا دیر کے بعد
موسمِ گل نہ رہا  قریۂ جاں میں تو اسے
زرد پتوں سے سجائیں گے ذرا دیر کے بعد

0
12