Circle Image

رحیم ظاؔہر

@Raheem1982

آنکھ بینا ہو دل کو بھی بینا بَنا

نفرتوں کے موسم میں جاں نثار کر دینا
اس خزاں کے موسم کو تم بہار کر دینا
خواب میں عطا کر دو اپنی دید کی بارش
نیند سے اٹھی آنکھیں پُر خمار کردینا
یاد کے حسیں لمحے ہاتھ سے پکڑنا تھا
پھر اُڑن کھٹولے میں خود سوار کر دینا

0
67
کب چھین سے کوئی سوتا ہے
دل خون کے آنسو روتا ہے
اک قتل ہوا، اک قتل کرے
ماں روئے یا پھر صبر کرے
ان کی نیّا بھی پار لگے
بگھڑی دنیا کو مار لگے

0
46
سب غم بھلا کے یار صدا کیوں نہیں دیتے
اس عشق کو بے مول شفا کیوں نہیں دیتے
یہ کیا کہ گلی دیکھ لی جلوہ نہیں دیکھا
انگارے کو بھڑکانے ہوا کیوں نہیں دیتے
ٹکڑوں میں مجھے کاٹ کے لے جانا بُرا ہے
"اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے"

60
"حسرتِ انتظارِ یارِ نہ پوچھ"
بڑی مشکل ہے بار بار نہ پوچھ
اس نے آنا ہے یہ خبر کر دو
کون ہے کب سے بے قرار نہ پوچھ
کتنا بے تاب ہوں بتاؤں کیا
چہرے سے کیا ہے آشکار نہ پوچھ

0
41
میری اکڑی سانس اس کے نام کیسے ہوگئی
جب یہ منزل دور تھی دو گام کیسے ہوگئی
سایہ بھی دگنا نہ ہو پایا بہت افسوس ہے
لو بتاؤ زندگی کی شام کیسے ہوگئی
چار رکعت میرے سب نے پڑھ لئے تھے بعد میں
زندگی کل تک رواں تھی جام کیسے ہوگئی

0
75
تن سے کٹ کر گرا تھا خدا کی پناہ
کون تھا کب سے تھا یہ کوئی بے گناہ
چھوٹا سا آدمی دل کا تھا وہ بڑا
ہائے ہائے یہ روتے کہا دور جا
یونہی بکھرا پڑا ہے اُسی کا لہو
اس کی چیخوں کی ہے گونج بھی چار سو

0
49
ہم اہلِ ذوق اہلِ قلم اُن سے روٹھ کر
بکھرے پڑے ہیں کاغذوں پہ غم سے ٹوٹ کر
ہم کو بھی یہ گمان تھا دھوکہ نہیں ہوا
یہ بھی فقط خیال بنا دل کو لوٹ کر
کچھ موتی چن لیے تھے سرِ راہ ہم سفر
سچ تو یہی ہے آنسو تھے رویا جو پھوٹ کر

0
56
ہم موت سے ہارے بھی تو ہاریں گے کئی لوگ
رو رو کے ہمیں دل سے پکاریں گے کئی لوگ
کچھ ہی دنوں کے سوگ کی تمثیل بنا کر
بکھری جو کوئی زلف سنواریں گے کئی لوگ
گر خاص ارادے سے وہ آیا بھی تو ابلیس
لازم ہے کہ کنکر اُسے ماریں گے کئی لوگ

0
42
دربدر مارا نہیں پھر سکتا
اب میں آوارہ نہیں پھر سکتا
بالوں میں چاندنی اتری ہوئی ہے
دل کا ہر کارہ نہیں پھر سکتا
لڑکھڑا کر نہ گرا آج تو سن
سال کے بارہ نہیں پھر سکتا

0
50
رازِ الفت کی گرہ کھولنے کب دیتا ہے
مجھ کو ہر بار صنم بولنے کب دیتا ہے
سچ کی کڑواہٹوں کا میں بھی بہت عادی ہوں
وہ مجھے کانوں میں رس گھولنے کب دیتا ہے
خوش تو ہو جاؤں اگر حد سے گزر جاؤں میں
وہ کوئی موتی مجھے رولنے کب دیتا ہے

0
109
آؤ چلتے ہیں جہاں سے
آؤ چلتے ہیں یہاں سے
اس جنم کیوں ہم نے جینا
جس میں جنتا، بچہ چیخے
وہ خوشی باہم منائیں
مرتے دم جب لوگ چیخیں

0
75
ہم کو بچپن سے یہ عادت تھی دعا کرتے تھے
ان کو سینے سے لگایا جو دغا کرتے تھے
میں نے یہ بات زمانے سے چھپا رکھی تھی
ہم کبھی مست جوانی میں ہوا کرتے تھے
حیف جب مرگ مفاجات نے توڑا مجھ کو
ورنہ تو خون میں شامل تھا وفا کرتے تھے

60
دستِ وحشت میں ہوں نکلنا ہے
دل کا کیا رات میں سنبھلنا ہے
گیلی آنکھوں میں غم چھپانا بھی
زہر جیسے اُگل نگلنا ہے
لاوہ آتش فشاں کا ہے برلب
گردنِ کوہ سے اُبَلْنا ہے

50
آسرے ان کے جیا وہ بھی میں نے دیکھ لیا
اس نے جب چھوڑ دیا وہ بھی میں نے دیکھ لیا
بارہا میرا پلٹ کر یہ نظر ڈالنا بھی
کس نے محسوس کیا وہ بھی میں نے دیکھ لیا
تیز غصے کا بہت زہر تھا اُس آن مرا
زہر کا گھونٹ پیا وہ بھی میں نے دیکھ لیا

0
59
ذرا سا اترا ہے چہرہ نہ دیکھو
ہماری چال ہے مہرا نہ دیکھو
نہ مجھ سے ہو سکے گی سرد مہری
مرے اطراف کا کہرا نہ دیکھو
عجب سی منطقی میری ڈگر ہے
پرائے ہاتھ میں زہرہ نہ دیکھو

0
76
ہر بزم میں شامل ہیں وہ کامل رنگیں
مر جاتے ہیں ان پر کئی بسمل رنگیں
آئی ڈی پہ تصویر میں تو لڑکی ہے
لڑکوں نے بنائے کئی محفل رنگیں

36
حقیقی موت آئی ہے
بہت تڑپ کے، دن یہ ہاتھ آیا ہے
گزارشات سن لو نا!
یہ آخری ہی باب میں رقم ہو گا
ہماری موت ہوتے ہی
حنوط لاش کرکے یوں صدا لگاؤ گے، سنو!

0
56
کب قابلِ بھروسہ تھے جس کو جدھر چنا
وہ سب نئے تھے لوگ جنہیں ہم سفر چنا
تجھ سے بچھڑ کے اور بھلا بات کیا ہوئی
فرقت سلگ سلگ کے جلانا اگر چنا
دیوار میں چنا ، اسے ایسی سزا بھی دی
جب بھی کہیں چنا تھا سو اپنا جگر چنا

0
49
یہ سلسلہ دیر تک، ہر شام چلتا رہا
ہر تذکرے میں وہیں، اک نام چلتا رہا
اک چاند چہرہ بنا ، خوابوں میں ڈیرہ ڈلا
شب بھر رہی چاندنی، الہام چلتا رہا
ہے گلشنوں کا نگر، بنتا ہوں نورِ نظر
یہ کون سا خواب ہے، ابہام چلتا رہا

0
51
ٹوٹنے سے بچنا تھا یہ بہت ضروری تھا
ٹوٹ کر بھی جُڑنا تھا یہ بہت ضروری تھا
دشت کا یہ موسم بھی تیرے ہاتھ بدلے گا
ہر جنم کا سپنا تھا یہ بہت ضروری تھا
بوجھ ان گناہوں کا میرے دل سے ہلکا ہو
تیرے در پہ جھکنا تھا یہ بہت ضروری تھا

0
68
مربوط کہانی میں ترا غم اکثر
وہ ساتھ میں لکھتا ہے مرا غم اکثر
آگے بھی تو صفحات میں غم لکھا ہے
قرطاس پہ آ کر جو گرا غم اکثر

0
28
کبھی آؤ
یہ رسمیں توڑ دیتے ہیں
دلوں کو موڑ لیتے ہیں
نئے رشتوں کی زنجیریں
قسم سے توڑ ڈالو تم
چلو یہ چھوڑ دیتے ہیں

0
49
نازک خیال کا کوئی چہرہ بنا گیا
چہرہ خیال سے ذرا گہرا بنا گیا
ہے یہ ستم ظریفی تو حالات کا نہ پوچھ
قسمت سے کھیل کر مجھے صحرا بنا گیا
ہاتھوں کو پڑھتے ساتھ ہی تارے بدک گئے
علمِ نجوم اک نیا تارہ بنا گیا

0
115
رشتوں کے سمندر میں عجب ڈوب گیا ہوں
بھائی پہ پڑوسی کا غضب ڈوب گیا ہوں
لوگوں سے پڑا واسطہ اللّٰہ ہی بچائے
ہم کو ملا ظالم کا لقب ڈوب گیا ہوں
اس دورِ منافق میں یہ دل ڈوبنا ہی کیا
وحشت زدہ ہوں ڈر کے سبب ڈوب گیا ہوں

0
75
خود سے جب ہم کلام ہوتی ہے
ہر گھڑی تیرے نام ہوتی ہے
درد اب اور بڑھ گیا ہوگا
غم سے بیمار شام ہوتی ہے
زندگی سے میں خوش نہیں ہوتا
سانس کی بس غلام ہوتی ہے

0
126
غم کی قربت سے یہ آثار نظر آئے ہیں
غم کے وارث سبھی غمخوار نظر آئے ہیں
گریہ کیا ضبط کروں ضبط نہ ٹوٹے کیسے
آج چہرے بڑے بیمار نظر آئے ہیں
منطقی ربط کی دیواریں عبوری سمجھو
دل میں آئے کھڑے سرکار نظر آئے ہیں

0
81
غم کی قربت سے یہ آثار نظر آئے ہیں
غم کے وارث سبھی غمخوار نظر آئے ہیں
گریہ کیا ضبط کروں ضبط نہ ٹوٹے کیسے
آج چہرے بڑے بیمار نظر آئے ہیں
منطقی ربط کی دیواریں عبوری سمجھو
دل میں آئے کھڑے سرکار نظر آئے ہیں

0
50
حقیقتاً تو خیالوں میں تیرے گم صم ہوں
کہیں پہ چشمِ تصور میں گویا میں تم ہوں
کرو نا! زار کی باتیں ہماری محفل میں
یہاں پہ کوئی نہیں ہے خیال میں گم ہوں
تُو خود میں گم ہی سہی نغمگی ہماری ہے
تمھاری ذات پہ چھایا ہوا ترنم ہوں

0
78
محبت کے سروں میں جان ڈالو کچھ کہو ہم سے
کہو دریا دلی سےغم میں ڈوبے ہیں بڑے غم سے
اسی کی داستاں ہے تو وہ کیسے سن نہیں سکتا
کہانی میں بہت سی ان کہی باتیں سنو ہم سے
تمھاری یاد کی بارش میں گیلے خواب لے کر ہم
پھسل کر ، گر گئے ہیں بے خیالی میں بڑے دھم سے

50
جہانِ کل سے ہو محبوب تیرا بیٹا ہوں
ماں تیرے نام سے منسوب تیرا بیٹا ہوں
ترے پیر تلے جنت ، خوشی میسر ہے
مجھے ہیں جنتیں مطلوب تیرا بیٹا ہوں
وفا کے دام نہیں، شکر کس طریقے ہو
شکر ہے آنکھیں ہیں مرطوب تیرا بیٹا ہوں

0
56
لوٹ آؤں گر اجازت ہےتری
دل مرا مانگے رفاقت ہے تری
دل کی خواہش ہے یہ بَن آباد ہو
زندگی میری رعایت ہے تری
اب گلہ کیسے کروں گا جان کر
ہر ادا قاتل مہارت ہے تری

0
60
چارہ گر چھوڑ گیا ساتھ تو حیرت کیوں ہے
اب دمِ مرگ ملاقات کی حسرت کیوں ہے
میں نے طوفان کے تھمنے کی دعا مانگی تھی
پھر گئی رات یہ بپھری ہوئی قدرت کیوں ہے
خفتیں ہیں وہ مٹانے کی ذرا بات کرے
صاف منصف سے کہو مانگتا اجرت کیوں ہے

0
76
عشق کا عنوان بننا چاہتا ہوں
با وفا انسان بننا چاہتا ہوں
اب مرے حالات کیوں ایسے بنے ہیں
ہائے کیوں طوفان بننا چاہتا ہوں
بات اس نکتے پہ آکر رک گئی ہے
سوچ لو مہمان بننا چاہتا ہوں

0
71
دنیا تیری چاہت میں تگ و دو
درجوں کی بھی جنت میں تگ و دو
رنگِ گل سے ہی تیری ندرت ہے
خوشبو کی بھی شرکت میں تگ و دو
رخِ جاناں کو چھو کر اب چاہوں
تمہیں ملنے کی حسرت میں تگ و دو

0
77
ہجر کی رات کے ہیں منتشر قصے
حشر سے بھی بڑے ہیں مختصر قصے
توبہ ہے میری گر یہ بات بن جائے
کیا سنائیں خطا کے بیشتر قصے
در بہ در ٹھوکروں کا ذکر کیوں کرتا
گر نہ ہوتے جفا کے منتظر قصے

0
68