نازک خیال کا کوئی چہرہ بنا گیا
چہرہ خیال سے ذرا گہرا بنا گیا
ہے یہ ستم ظریفی تو حالات کا نہ پوچھ
قسمت سے کھیل کر مجھے صحرا بنا گیا
ہاتھوں کو پڑھتے ساتھ ہی تارے بدک گئے
علمِ نجوم اک نیا تارہ بنا گیا
بانہیں پکڑ کے کون سی قسمت بدل گئی
وہ خود پکڑ کے ہاتھ سے تیرا بنا گیا
ماحول اس کے گھر کا کبھی سازگار ہو
خوش تو نہیں بے کار کا سہرا بنا گیا
میرے نصیب میں دغا کا دخل تو نہیں
کیوں کانچ کو رگڑ کے یہ ہیرا بنا گیا
ظاؔہر کہیں پہ جاکے یہ ماتھے کو داغ دو
روشن سے تیرے دل کو وہ تیرہ بنا گیا

0
115