نفرتوں کے موسم میں جاں نثار کر دینا
اس خزاں کے موسم کو تم بہار کر دینا
خواب میں عطا کر دو اپنی دید کی بارش
نیند سے اٹھی آنکھیں پُر خمار کردینا
یاد کے حسیں لمحے ہاتھ سے پکڑنا تھا
پھر اُڑن کھٹولے میں خود سوار کر دینا
تم کو دیکھے بن میری جان نکلی جائے ہے
سوجھ بوجھ کر آنا پھر سنگھار کر دینا
مجھ کو اپنے پہلو میں رات بھر سمو جاناں
کروٹیں بدل دینا بے قرار کر دینا
چاند سے یہ پوچھو نا! آج مجھ سے روٹھا کیوں
نقد میں منا لینا، دکھ ادھار کر دینا
سانس آخری ہوگی دل مریض جاں لیوا
گرتی پڑتی سانسوں کا بس شمار کر دینا
صبح ماتمی جیسے، کالے رنگ چن چن کر
تازے تازے چہروں کو ناگوار کر دینا
جانے کالا جادو ہے کیسے کون کرتا ہے
اس حسین چہرے پر غم غبار کر دینا
زندگی کٹے کیسے تیرے بن رہیں کیسے
غم کو ضرب دے کر غم غم کو بار کر دینا
رت جگے کے موسم میں کاش ایسا ممکن ہو
اے خدا مری حالت پُروقار کر دینا
توڑنا مجھے آساں، دل کا نرم ہوں ظاؔہر
توڑنا جو چاہو تو دل پہ وار کر دینا

0
67