دستِ وحشت میں ہوں نکلنا ہے
دل کا کیا رات میں سنبھلنا ہے
گیلی آنکھوں میں غم چھپانا بھی
زہر جیسے اُگل نگلنا ہے
لاوہ آتش فشاں کا ہے برلب
گردنِ کوہ سے اُبَلْنا ہے
تو بھلے خاص کا تقاضا رکھ
دل اِسی عام پر پھسلنا ہے
چاند اترے نہ نیند آئے گی
ماہ پرستوں کو بس مچلنا ہے
تم بتاؤ تمھارے کوچے میں
حد سے گرنا ہے یا نکلنا ہے
عشق کی آگ جل چکی ہے اب
جل کے کیا خاک کو کچلنا ہے
دل کو دل کے ہی روگ کا تحفہ
دل کو انگار میں مسلنا ہے
شیش کی منعکس شعاؤں سے
برف کا دل کہاں پھگلنا ہے
آج کے بعد میرے شعروں نے
پاگلوں کی طرح اچھلنا ہے
اُن سے ظاؔہر بچھڑ کے صدمے سے
پھر کسی شام کو بدلنا ہے

66