تن سے کٹ کر گرا تھا خدا کی پناہ
کون تھا کب سے تھا یہ کوئی بے گناہ
چھوٹا سا آدمی دل کا تھا وہ بڑا
ہائے ہائے یہ روتے کہا دور جا
یونہی بکھرا پڑا ہے اُسی کا لہو
اس کی چیخوں کی ہے گونج بھی چار سو
تیرا کوئی نہیں ان میں کوئی نہیں
تیری ماں سے کہوں کیا جو سوئی نہیں
ان میں کوئی نہیں تیرا اک چارہ گر
جانِ من سب کے سب کا ہے دھوکہ ہنر
بولتے ہیں بڑے بول سے ہیں جڑے
جل کے بجھ راکھ کے ڈھیر پر ہیں کھڑے
اصل میں کچھ نہیں ہے دکھاوا سبھی
اپنے ہی دکھ کا خود ہی مداوا سبھی
ان کے وعدوں میں کیا خوب ہی رنگ ہے
بندہ جب بھی پھنسا تو وہ بھی دھنگ ہے
بولتے ہی رہیں گے کریں گے نہیں
جھوٹ سچ یہ ڈھٹائی سے کہتے کہیں
اب چلے آؤ رستہ بتاؤں تجھے
کان رکھنا ادھر اور سنو بھی مجھے
کوچ کر اپنا رستہ پکڑ دور جا
خود جَلاؤ دِیا خود سے کہنا کہ آ
وہ دِیا جس سے روشن ہو سارا جہاں
میرے بھٹکے ہوؤں کو ملے کہکشاں
ان کو اب ہاتھ سے ہی پکڑ کر چلا
آنکھ بینا ہو دل کو بھی بینا بنا
اک تمنا ہے سو پوری بھی ہو کبھی
حد لگے جب کوئی چوری بھی ہو کبھی
ہاتھ کٹ جائیں گے سب کے ہی سامنے
لوگ پوچھیں گے وہ حال بھی جاننے
ناک کاٹی تو بدلے میں بس ناک دو
کوئی بھی نہ لُٹَے اونچی ہر ناک ہو
اب سزا قتل کی جب سزا قتل ہو
تو یہاں کیوں یہ دھرتی بھلا قتل ہو
کان کے بدلے جب کان ہی بس کٹیں
گردنیں پھر کسی دن میں کیوں دس کٹیں
میری دھرتی پہ قانونِ قدرت ہے کب
ٹھیک ہوجائیں گے وقت پر سب کے سب
اس کی ماں سے کہوں گا کہ رونا نہیں
حق کی باتیں ہوں جب تو یہ ہونا نہیں
خوں خرابہ نہ ہوگا نہ چیخیں کوئی
خونیں سیلاب ہوگا نہ چھینٹیں کوئی

0
49