ہم موت سے ہارے بھی تو ہاریں گے کئی لوگ
رو رو کے ہمیں دل سے پکاریں گے کئی لوگ
کچھ ہی دنوں کے سوگ کی تمثیل بنا کر
بکھری جو کوئی زلف سنواریں گے کئی لوگ
گر خاص ارادے سے وہ آیا بھی تو ابلیس
لازم ہے کہ کنکر اُسے ماریں گے کئی لوگ
اُس کی ہے جبلّت کہ وہ ڈالے گا وساوس
گمراہ ہو کے جان بھی واریں گے کئی لوگ
تم سے جڑا ہے یوں کہ مرا نام ترا نام
ہم مر بھی جو جائیں تو پکاریں گے کئی لوگ
ہم سے جدا وہ اُن کو ذرا دیکھ لیں ظاؔہر
اُن کی گلی میں شام گزاریں گے کئی لوگ

0
42