ہم کو بچپن سے یہ عادت تھی دعا کرتے تھے
ان کو سینے سے لگایا جو دغا کرتے تھے
میں نے یہ بات زمانے سے چھپا رکھی تھی
ہم کبھی مست جوانی میں ہوا کرتے تھے
حیف جب مرگ مفاجات نے توڑا مجھ کو
ورنہ تو خون میں شامل تھا وفا کرتے تھے
سوچ گہری ہو صدا بار ہا مجھ کو دے کر
شعر میں درد کے عنوان سوا کرتے تھے
آپ نے حال میں دیکھا ہمیں آشفتہ سر
ہم تو ہر آن ہی مہمان بنا کرتے تھے
وہ دعائیں جو ترے حق میں نکلتی منہ سے
تم کو ظاہر کسی جنت کی نوا کرتے تھے

60